رسائی کے لنکس

فوج شمالی وزیر ستان میں جانے کے لیے تیار


پاکستانی فوج قبائلی علاقے میں
پاکستانی فوج قبائلی علاقے میں

جنرل یاسین نے کہا کہ ان حالات میں وہ نئے محاذ کھولنے کے متحمل نہیں اور جوں ہی ان علاقوں میں استحکام آتا ہے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن کیا جائے گا لیکن اس کا تعین فوجی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔

شمال مغربی پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی فوجی کارروائیوں کے سربراہ نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فو ج کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے جوعسکریت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لیے مخصوص’ تلاشی اور گھیراؤ‘ کے آپریشن میں مصروف ہے۔

امریکی حکام کا ماننا ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے جنگجوؤں نے اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں جنھیں سرحد پار اتحادی افواج پر مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

امریکہ طویل عرصے سے پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے بھرپور فوجی کارروائی کرے اور یہ معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین
لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین

جمعرات کو غازی ایویشن بیس پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں عمومی طور پر صورت حال بہتر ہے لیکن پھر بھی حالات فوجی کارروائی کا تقاضا کرتے ہیں اور پاکستانی فوج اس کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ تاہم انھوں کہا کہ فوج کو اس وقت مختلف ایشوز درپیش ہیں جن میں وسائل کی کمی اور دوسرے قبائلی علاقوں سمیت صوبہ خیبر پختون خواہ میں سکیورٹی کی صورت حال کو مستحکم کرنا شامل ہیں۔

جنرل یاسین نے کہا کہ ان حالات میں وہ نئے محاذ کھولنے کے متحمل نہیں اور جوں ہی ان علاقوں میں استحکام آتا ہے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن کیا جائے گا لیکن اس کا تعین فوجی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا اور اس لیے شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن سے گریز اں ہے۔

لیکن کور کمانڈر نے اس تاثر کو ایک بار پھر رد کیاہے۔ ”عسکریت پسند خواہ کسی بھی گروہ، قومیت یا نسل سے تعلق رکھتا ہو، کوئی بھی کپڑے پہنے یا زبان بولے اگر وہ کسی ملک خاص طور پر پاکستان کے عوام کے خلاف منفی سوچ رکھتا ہے وہ عسکریت پسند ہے اور ہم کسی ایسے شخص کے ساتھ رعایت نہیں برتیں گے۔ اس بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ “

انھوں نے کہا کہ شمالی وزیر ستان میں اگر ضرورت پڑی تو ایک بھرپور فوجی آپریشن کیا جائے گا لیکن ایسی کارروائی کی نوعیت کا تعین ایک تدبیری فیصلہ ہے جو وقت اور مقام کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔

اس قبائلی علاقے سے متصل جنوبی وزیرستان مقامی طالبان کا ایک مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا اور یہاں تربیت پانے والے جنگجو ملک میں ہونے والے بیشتر خودکش اور دوسرے دہشت گرد حملے کر رہے تھے جس کے ردعمل میں گذشتہ سال اکتوبر میں فوج نے ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کو ہلاک یا انھیں بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا ہے ۔

فوج شمالی وزیر ستان میں جانے کے لیے تیار
فوج شمالی وزیر ستان میں جانے کے لیے تیار

لڑائی کے نتیجے میں جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے لگ بھگ دو لاکھ افراد کی گھروں کو واپسی کا عمل رواں ماہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم قبائلی سلامتی کے خدشات کے پیش نظر واپس جانے سے اب بھی گریزاں ہیں۔

تاہم کورکمانڈر نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں صورتحال تیزی سے استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہاں تعمیر نو کی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں جن میں ہسپتالوں، سڑکوں، پلوں اور آبپاشی کے منصوبوں کی تعمیر شامل ہیں۔

جنرل یاسین نے کہا کہ پچھلے چھ ماہ میں صوبہ خیبر پختون خواہ میں بھی حالات بہتر ہوئے ہیں جس کا واضح ثبوت پر امن ماحول میں عید کے تہواراور پشاور سمیت سوات میں ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد ہے، جب کہ ماضی کے برعکس پشاور کو کوہاٹ سے ملانے والی سرنگ اب چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے ۔

XS
SM
MD
LG