رسائی کے لنکس

صدر ایردوان کے لیے 2023 کا الیکشن 'بڑا چیلنج' کیوں؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کے لیے رواں برس مئی میں ہونے و الے انتخابات کو ان کے 20 سالہ دورِ اقتدار کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر ایردوان اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ حال ہی میں آنے والے تباہ کُن زلزلے کے باجود ترکی میں عام انتخابات 14 مئی کو ہوں گے۔

طیب ایردوان 10 مارچ کو ترکیہ میں انتخاب کے انعقاد کا حتمی اعلان کریں گے جس کے بعد انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔ اب تک ترکیہ میں سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس بار کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔

انتخابات میں صدر ایردوان کے مقابلے کے لیے حزبِ اختلاف کی چھ جماعتوں کے اتحاد نے اپنے مشترکہ امیدوار کا اعلان کیا ہے۔ دائیں اور بائیں بازو اور بعض اسلام پسندوں کے اس اتحاد کے امیدوار کمال قلیج دار اولو ہوں گے جو ری پبلکن پیپلز پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

حزبِ اختلاف کے اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر ایردوان کے دور میں مذہبی حلقوں کی ہم دردی حاصل کرنے، جارحانہ سفارت کاری اور شرحِ سود میں کمی کرنے جیسی پالیسیوں کو تبدیل کریں گے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ صدارتی انتخاب ترکیہ میں طرزِ حکومت اور قانون سازی کے مستقبل کے لیے اہم ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں ترکیہ کا سفارتی مؤقف الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

ترکیہ کے لیے یہ انتخاب کیوں اہم ہے؟

رجب طیب ایردوان کو جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے بعد ملکی تاریخ کا طاقت ور ترین رہنما سمجھا جاتا ہے۔

مصطفیٰ اتاترک نے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی کو ایک سیکیولر ریاست بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر آئین و قانون، سماجی اور تعلیمی شعبوں میں اصلاحات اور تبدیلیاں متعارف کرائی تھیں۔

جب کہ طیب ایردوان کے دور میں ہونے والی قانون سازی اور اقدامات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے ترکی کا سیکیولر تشخص متاثر ہوا ہے۔

ایردوان پر اختیارات کو صدرات کے عہدے میں مرتکز کرنے کی وجہ سے بھی تنقید کی جاتی ہے۔ صدارتی اختیارات بڑھانے کے لیے کی گئی آئینی ترامیم کے بعد صدر ایردوان انقرہ میں ایک ہزار کمروں پر مشتمل اپنے صدارتی محل میں ترکی کی معاشی، علاقائی، بین الاقوامی اور قومی سلامتی سے متعلق پالیسیوں کے فیصلے کرتے ہیں۔

ناقدین کے مطابق صدر ایردوان کی حکومت میں اختلاف کرنے والوں کی آواز دبائی گئی ہے اور عدالتی نظام بھی حکومت کے دباؤ میں ہے۔

صدر طیب ایردوان کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ 2016 میں ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد اسے غیر معمولی سیکیورٹی خدشات کا سامنا ہے۔ حکومت کے بقول ان خدشات سے عام شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے غیر معمولی اقدامات ضروری ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ صدر ایردوان کی شرحِ سود کم رکھنے کی پالیسی کی وجہ سے گزشتہ برس ترکیہ میں افراطِ زر میں 85 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قیمت گزشتہ ایک دہائی کے دوران 10 فی صد کم ہوئی ہے۔

دنیا کے لیے ترکیہ کے الیکشن اہم کیوں؟

صدر ایردوان کے دور میں ترکی نے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں میں بھی اپنی عسکری قوت کا اظہار کیا ہے۔ شام میں چار مرتبہ حملے کیے گئے، اسی طرح عراق میں بھی کرد عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ لیبیا اور آذر بائیجان کو بھی فوجی تعاون فراہم کیا۔

اس دوران کئی علاقائی قوتوں جیسے سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے ترکیہ کے تنازعات سامنے آئے۔ مشرقی بحیرۂ روم میں سمندری حدود پر یونان اور قبرص سے تنازع ہوا۔ اگرچہ گزشتہ دو سال میں ترکیہ نے مفاہمانہ رویہ اختیار کیا ہے اور کئی مخالفین کے ساتھ تعلقات بھی بحال کرلیے ہیں۔

ایردوان کے روس سے ایئر ڈیفینس سسٹم خریدنے کے فیصلے کی وجہ سے امریکہ نے انقرہ پر ہتھیار سازی کی صنعت سے متعلق پابندیاں عائد کیں۔ اس کے علاوہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ایردوان کی قربت کی وجہ سے ناقدین مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کے ساتھ ترکیہ کی وابستگی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔

ترکیہ نے گزشتہ برس سوئیڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کی درخواستوں کی بھی مخالفت کی تھی۔

تاہم ترکیہ نے روس اور یوکرین کے درمیان اقوامِ متحدہ کی شروع کیے گئے مذاکراتی عمل میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ ان مذاکرت کے بعد 'بلیک سی گرین ڈیل' ممکن ہوئی جس کے نتیجے میں روس نے یوکرین کی گندم، اناج اور بیجوں وغیرہ کی برآمدات بحال کیں۔

یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد بحیرۂ اسود میں روس کی ناکہ بندی کی وجہ سے یوکرین کی یہ برآمدات رک گئی تھیں اور عالمی سطح پر غذائی بحران کا خطرہ منڈلانے لگا تھا۔

اس ثالثی میں کردار ایردوان کی بڑی سفارتی کامیابی تھی۔ یہ واضح نہیں کہ ان کی جگہ کوئی اور برسرِ اقتدار آتا ہے تو وہ بھی بین الاقوامی سفارت کاری میں اسی طرح اپنی اہمیت منوانے میں کامیاب ہوپائے گا یا نہیں۔

مبصرین کے مطابق ایردوان عالمی سطح پر اپنی سفارتی کامیابی کو اجاگر کریں گے اور اسے اپنی انتخابی مہم کے مرکزی نکات میں شامل رکھیں گے۔

ایردوان کا مقابلہ کس سے ہے؟

صدر ایردوان کا مقابلہ حزبِ اختلاف کی جن چھ جماعتوں کے اتحاد سے ہوگا اس میں سیکیولر نظریات کی حامی ری پبلکن پیپلز پارٹی اور قدرے دائیں بازو کی 'آئی وائے آئی پارٹی' اتحاد کی بڑی جماعتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن اتحاد میں چار دیگر چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہیں۔

اپوزیشن اتحاد ایردوان کے کئی اقدامات اور پالیسیوں کو بدلنے کا وعدہ لے کر میدان میں اترا ہے۔ ترکی کے مرکزی بینک کی خود مختاری کو بحال کرنا اور ایردوان کی غیر روایتی معاشی پالیسوں میں تبدیلی اپوزیشن جماعتوں کے انتخابی پروگرام کا حصہ ہیں۔

صدر ایردوان کے دور میں کی گئی ترامیم کے نتیجے میں ترکیہ میں صدارتی نظام قائم ہوا ہے۔ اپوزیشن اتحاد آئین میں تبدیلی کرکے ایک مرتبہ پھر ترکیہ کو پارلیمانی جمہوریت بنانے کا منشور رکھتا ہے۔ یہ اتحاد شامی پناہ گزینوں کو ترکیہ سے واپس بھیجنے کا بھی حامی ہے۔

صدر ایردوان نے شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے کی کوششوں کی حمایت کی تھی جو کامیاب نہیں ہوسکیں۔ شام کی صورتِ حال کی وجہ سے تقریباً 36 لاکھ شامی پناہ گزین ترکیہ آچکے ہیں۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے ترکیہ میں شامی پناگزینوں کی آمد کا خیر مقدم نہیں کیا گیا۔

ماضی میں صدر ایردوان بھی شامی پناہ گزینوں کی واپسی کی بات کرچکے ہیں اور اپوزیشن بھی ان کے اس وعدے کو دہراتی ہے۔ تاہم دونوں ہی پناہ گزینوں کی محفوظ واپسی کے بارے میں کوئی روڈ میپ یا منصوبہ پیش نہیں کرسکے ہیں۔

اب کیا ہوگا؟

صدر ایردوان کے دو دہائیوں پر محیط اقتدار میں پہلی دہائی معاشی ترقی کے لیے یاد کی جاتی ہے۔ لیکن گزشتہ 10 سال کے دوران ترکیہ معاشی انحطاط کا شکار ہوا ہے۔ یہ معاشی حالات ایردوان کے ووٹ بینک پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

البتہ ترکیہ میں حالیہ زلزلے کے دوران بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے بعد آنے والے رائے عامہ کے جائزوں میں ایردوان کی عوامی حمایت برقرار ہے۔ البتہ تجزیہ نگاروں کے مطابق اپوزیشن اتحاد صدر ایردوان کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔

ترکیہ کے مجموعی ووٹروں میں 15 فی صد کردوں پر مشتمل ہے۔یہ سوال اہم ہے کہ اپوزیشن کردوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے۔

کردوں کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے عندیہ دیا ہے کہ 'دو ٹوک اور واضح' مذاکرات کے بعد وہ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار قلیج دار اولو کی حمایت پر غور کر سکتے ہیں۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG