رسائی کے لنکس

اسرائیل حماس عارضی جنگ بندی معاہدہ؛ یرغمال افراد کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟


اسرائیل کی کابینہ نے یرغمال افراد کی بازیابی کے لیے حماس کے ساتھ چار روزہ جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت یرغمالوں اور قیدیوں کی رہائی سمیت غزہ کے مختلف علاقوں میں خوراک کی ترسیل کو ممکن بنایا جائے گا۔

فریقین کے درمیان ڈیڑھ ماہ سے جاری جنگ کے دوران غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 13 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ اسرائیلی فورسز کی زمینی و فضائی کارروائی کے باوجود اب تک یرغمالوں کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا تھا۔

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر غیر متوقع حملہ کر کے اسرائیلی حکومت کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد کو ہلاک اور 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا تھا۔

تاہم اب فریقین کے درمیان معاہدے کے تحت حماس 50 یرغمالوں کو رہا کرے گا جس کے بعد اسرائیلی فورسز غزہ میں چار روز تک حملے روک دیں گے۔ اس کے علاوہ اسرائیل اپنی جیلوں میں قید 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔

حماس کی تحویل میں یرغمالی ہیں کون؟

حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے دوران جن افراد کو یرغمال بنایا تھا ان میں مختلف برادریوں کے افراد شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ حماس کی تحویل میں موجود افراد میں لگ بھگ نصف غیر ملکی شہری ہیں یا ان کے پاس اسرائیل کے ساتھ ساتھ کسی اور ملک کی بھی شہریت ہے۔ یہ افراد امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اسپین، پرتگال، چلی، تھائی لینڈ، ارجنٹائن سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ یرغمال افراد میں لگ بھگ 40 بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سب سے کم عمر بچے کی عمر 10 ماہ بتائی جا رہی ہے۔

اسرائیل کی زمینی کارروائی: کیا حماس ختم ہو سکے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:13 0:00

واضح رہے کہ حماس نے اپنے حملے میں کھیتی باڑی کرنےوالی اسرائیلی کمیونٹی 'کینوتز' کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کے اڈے اور سرحد کے قریب میوزک فیسٹیول جنگجو کے حملوں کی زد میں آیا جہاں سے لوگوں کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کیا گیا۔

حماس نے اسرائیل کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کے افراد کو بھی یرغمال بنا کر غزہ منتقل کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق یرغمالوں میں ایک ایسی 17 سالہ لڑکی بھی شامل ہے جو نہ تو خود چل سکتی ہے اور نہ ہی وہ بات کرنے کے قابل ہے۔ اس لڑکی کو خوراک بھی ٹیوب کے ذریعے فراہم کی جاتی تھی۔

اب تک یرغمال افراد کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے؟

حماس اب تک چار یرغمال افراد کو رہا کر چکی ہے۔ حماس کے مطابق ان افراد کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا گیا ہے۔

حماس نے 20 اکتوبر کو 59 سالہ امریکی شہری جوٖتھ رانن اور ان کی 17 سالہ بیٹی نتالی رانن کو رہا کیا تھا۔ بعد ازاں 23 اکتوبر کو 79 سالہ نوریت کوپر اور 85 سالہ یوشیوڈ لیشٹز کو رہا کیا گیا۔

اسرائیلی فورسز نے زمینی کارروائی کے دوران 30 اکتوبر کو ایک خاتون فوجی اری میگیدیش کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں کن حالات میں بازیاب کرایا گیا۔

رواں ماہ غزہ سٹی میں اسرائیلی فورسز نے بتایا تھا کہ زمینی کارروائی کے دوران دو یرغمال افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن میں 19 سالہ خاتون فوجی اہلکار نوا مارکیانو بھی شامل تھیں۔

نوا مارکیانو کے حوالے سے اسرائیلی فورسز کا الزام تھا کہ ان کی لاش شمالی غزہ میں الشفا اسپتال کے قریب سے برآمد ہوئی تھی جنہیں حماس نے قتل کیا تھا۔

حماس کے ساتھ ساتھ غزہ کی ایک اور عسکری تنظیم ’الجہاد الاسلامی‘ نے بھی اسرائیل پر حملے میں حصہ لیا تھا اور کئی افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔

عسکری تنظیم نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کی تحویل میں موجود ایک یرغمالی کی موت ہوئی ہے۔تاہم تنظیم نے ہلاک ہونے والے شخص کی مزید تفصیل جاری نہیں کی گئی۔

حماس نے یرغمال افراد کو کہاں رکھا ہے؟

حماس نے کہا ہے کہ اس نے یرغمال افراد کو غزہ میں محفوظ مقامات اور زیرِ زمین سرنگوں میں رکھا ہوا ہے۔

اسرائیل کا بھی کہنا ہے کہ حماس کا زیرِ زمین ایک بڑا نیٹ ورک اور اسلحے کے ذخائر ہیں جہاں سے وہ اپنی کارروائیاں کرتی ہے جب کہ ان سرنگوں کو حماس کے جنگجو آمد و رفت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

حماس نے 23 اکتوبر کو اسرائیل کی جس 85 سالہ شہری یوشیوڈ لیشٹز کو رہا کیا تھا۔ انہوں نے بازیابی کے بعد کہا تھا کہ انہیں زیرِ زمین سرنگ میں لے جایا گیا تھا اور وہ جگہ بالکل مکڑی کے جالے کی مانند تھی۔

اسرائیل کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ یرغمال بنائے گئے بعض افراد کو غزہ میں اسپتالوں کے تہہ خانوں میں رکھے جانے کے شواہد ملے ہیں۔

اسرائیلی فورسز نے الزام لگایا ہے کہ 19 سالہ خاتون فوجی اہلکار نوا مارکیانو کو بھی غزہ کے سب سے بڑے اسپتال الشفا کے اندر قتل کیا گیا تھا۔

اسرائیل کی فوج نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جو کہ سیکیورٹی کیمروں سے ریکارڈ ہوئی ہے جس میں دو افراد کو اسپتال لایا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فورسز کا دعویٰ ہے کہ اس ویڈیو میں دو یرغمال افراد کو زبردستی اسپتال لایا جا رہا ہے۔

یرغمال افراد کو کن حالات میں رکھا گیا ہے؟

اسرائیلی شہری یوشیوڈ لیشٹز نے حماس کی تحویل سے رہائی کے بعد بتایا تھا کہ یرغمال افراد کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کر دیا تھا اور انہیں زیرِ زمین سرنگ کے اندر فرش پر میٹرس پر سلایا جاتا تھا۔

حماس کی حراست میں حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہاں ڈاکٹر صحت کا خیال رکھنے کے لیے آتے تھے۔ حماس یہ ممکن بناتی تھی کہ یرغمال افراد کو رہنے کے لیے صاف ستھرا ماحول فراہم کیا جائے۔

حماس نے اکتوبر میں تین خواتین کی ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ خواتین اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے اقدامات پر تنقید کر رہی تھیں۔

بن یامین نیتن یاہو نے اس ویڈیو کو بد ترین پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔

یرغمال افراد کے اہلِ خانہ کا کیا ردِ عمل رہا؟

حماس کے ہاتھوں یرغمال بننے والے افراد کے اہلِ خانہ اور عزیز اسرائیلی حکومت پر مستقل یہ دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ یرغمالوں کی بازیابی کو ترجیح دے۔

یرغمالوں کے اہلِ خانہ کو یہ بھی خوف ہے کہ اسرائیلی فورسز کی غزہ میں کارروائیوں سے ان کے پیاروں کی موت ہو سکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے اسرائیل میں تل ابیب اور یروشلم شاہراہ پر ایک بڑا مارچ منعقد کیا گیا تھا جس میں یرغمال افراد کے اہلِ خانہ سمیت لگ بھگ 20 ہزار افراد شریک تھے۔

اسرائیلی یرغمالیوں کی بازیابی کی مہم؛ کیا اس سے فرق پڑے گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:55 0:00

مارچ کے شرکا کا مطالبہ تھا کہ یرغمالوں کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔

اسرائیل کی اتحادی حکومت کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو مستقل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ تمام یرغمال افراد کو بازیاب کرا کر گھر واپا لایا جائے گا۔

اس تحریر میں معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG