رسائی کے لنکس

حماس سے لڑنے والے دروز عربوں کو اسرائیل کے متنازع قانون سے کیا شکایات ہیں؟


دروز کمیونٹی کا ایک اجتماع۔ فائل فوٹو
دروز کمیونٹی کا ایک اجتماع۔ فائل فوٹو

حماس کے خلاف جنگ میں دروز عرب کمیونٹی کے جوان اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ اس لڑائی میں اب تک 390 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں چھ دروز بھی شامل ہیں۔

دروز اسرائیل میں آباد ایک پس ماندہ عرب اقلیت ہے۔ان کی مجموعی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جو اسرائیل کے شمال میں واقع الجلیل، کارمل اور گولان کے علاقوں میں آباد ہے۔

ایک امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق دروز اپنے اندر سمٹی ہوئی ایک کمیونٹی ہے جو دوسری برادریوں میں گھلنے ملنے سے گریز کرتی ہے اور اپنی صدیوں پرانی روایات پر سختی سے کاربند رہتی ہے۔ مسلک کے اعتبار سے وہ شیعہ اسماعیلی فرقے سے قریب ہے تاہم ان کے اپنے عقائد اور روایات ہیں ، جس میں اسلام، مسیحیت، یہودیت اور یونانی فلسفے کی جھلک نظر آتی ہے۔

دروز خود کو اسرائیلی کہلاتے ہیں اور وطن سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔وہ اسرائیلی فوج میں شامل ہو کر اسرائیل کے لیے لڑتے ہیں اور اس کی خاطر اپنی جان بھی دیتے ہیں۔تاہم دروز خواتین فوج میں بھرتی نہیں ہوتیں۔

اسرائیل میں آباد ایک سابق دروز عرب فوجی ماجدی خطیب جو اب ایک ریستوران اور گھوڑوں کا فارم چلاتے ہیں فوٹو اے ایف پی۔
اسرائیل میں آباد ایک سابق دروز عرب فوجی ماجدی خطیب جو اب ایک ریستوران اور گھوڑوں کا فارم چلاتے ہیں فوٹو اے ایف پی۔

اتوار کے روز حماس کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان دینے والے ایک دروز فوجی، عدی مالک حرب کی روایتی مذہبی انداز میں آخری رسومات ادا کی گئیں اور روایتی سفید ٹوپیوں اور سیاہ لباس میں ملبوس مذہبی اکابرین نے تابوت کے سامنے کھڑے ہو کر دعائیہ کلمات ادا کیے۔

تدفین کی یہ رسومات شمالی اسرائیل کے ایک قصبے بیت جان میں ہوئیں۔ زیادہ تر دروز اقلیت اس علاقے کے 16 قصبوں اور بستیوں میں آباد ہے۔

اس سے قبل مزید پانچ دروز فوجی اس جنگ میں مارے جا چکے ہیں جن میں دروز لیفٹننٹ کرنل سلام حبکا بھی شامل ہیں۔

حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں ایک دروز اسرائیلی لیفٹیننٹ کرنل سلام حبکا بھی مارا گیا ہے۔ اس کی آخری رسومات کے موقع پر سوگواروں کا ہجوم۔ 3 نومبر 2023
حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں ایک دروز اسرائیلی لیفٹیننٹ کرنل سلام حبکا بھی مارا گیا ہے۔ اس کی آخری رسومات کے موقع پر سوگواروں کا ہجوم۔ 3 نومبر 2023

اتوار کے روز عدی مالک کی تدفین کے موقع پر دروز برادری کے ایک مذہبی رہنما شیخ موفق طریف نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا عدی مالک کے دوست اور جاننے والے اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ وہ کسی مداخلت یا حکم یا جرمانے کے خوف سے آزاد ہو کر بیت جان میں کام کر سکیں اور اپنے گھر بنا سکیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دروز کمیونٹی کی آبادیاں پس ماندگی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ انہیں بجلی، پانی کی فراہمی، سوریج کے نظام اور سڑکوں کی کمی اور دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔

اسرائیل کا 2018 میں منظور ہونے والا متنازع قانون

دروز کمیونٹی کو اسرائیل کے 2018 میں منظور ہونے والے متنازع قانون سے بھی شکایت ہے۔ اس قانون میں اسرائیل کی بنیادی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے اسے ایک یہودی ریاست کا درجہ دیا گیاتھا۔ اور عربی زبان کی سرکاری حیثیت ختم کر کے اب اسے خصوصی زبان بنا دیا گیا ہے۔ دروز اور اسرائیل کے دیگر عرب شہری اس قانون کو اہانت آمیز سمجھتے ہیں۔

دروز کمیونٹی کو اسرائیل سے کافی شکایات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی پس ماندگی دور کرنے کے لیے حکومت کچھ نہیں کرتی۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں تک ان کی رسائی محدود ہے اور حتیٰ کہ حکام انہیں اپنے گھر تعمیر کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔اگر وہ اپنے پرانے اور آبائی مکانوں میں اضافی تعمیرات کر لیں تو عہدے دار آکر یا تو انہیں گرا دیتے ہیں یا پھر بھاری جرمانہ لگا دیتے ہیں۔

شمالی اسرائیل میں دروز کمیونٹی کے ایک قصبے بیت جان میں لوکل کونسل کی عمارت پر اسرائیل اور دروز کمیونٹی کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ فائل فوٹو
شمالی اسرائیل میں دروز کمیونٹی کے ایک قصبے بیت جان میں لوکل کونسل کی عمارت پر اسرائیل اور دروز کمیونٹی کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ فائل فوٹو

دروز کمیونٹی کو اسرائیل کے 2018 میں منظور ہونے والے متنازع قانون سے بھی شکایت ہے۔ اس قانون میں اسرائیل کی بنیادی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے اسے ایک یہودی ریاست کا درجہ دیا گیاتھا۔ اور عربی زبان کی سرکاری حیثیت ختم کر کے اب اسے خصوصی زبان بنا دیا گیا ہے۔ دروز اور اسرائیل کے دیگر عرب شہری اس قانون کو اہانت آمیز سمجھتے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دروز کمیونٹی کی آبادیاں پس ماندگی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ انہیں بجلی، پانی کی فراہمی، سوریج کے نظام اور سڑکوں کی کمی اور دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔

بنیادی مسائل کے حل کے لیے دروز کمیونٹی مہینوں تک احتجاجی مظاہرے کرتی رہی ہے۔ ایک احتجاجی لیڈر صلاح ابو رکون کہتے ہیں ہیں ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ کسی دروز کو مکان بنانے کا اجازت نامہ مل جائے۔

شمالی اسرائیل میں دروز کمیونٹی کا ایک دور افتادہ قصبہ۔ اسرائیل میں دروز برداری کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ فائل فوٹو
شمالی اسرائیل میں دروز کمیونٹی کا ایک دور افتادہ قصبہ۔ اسرائیل میں دروز برداری کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ فائل فوٹو

دروز کمیونٹی کے زیادہ تر مکانات عشروں پرانے ہیں اور ان میں سے اکثر کسی اجازت نامے کے بغیر تعمیر کیے گئے تھے۔ رکون کہتے ہیں کہ پرانے مکانوں کو گرانے یا بھاری جرمانے لگانے کے احکامات اکثر جاری ہوتے رہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دروز کمیونٹی کی ملکیت میں اب بہت کم نجی زمینیں رہ گئی ہیں جو ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ منصوبہ بندی کے بغیر بنائی گئی عمارتوں کے قانون پر عمل درآمد میں 2017 کے بعد سے بہت اضافہ ہواہے جس سے مسائل بڑھے ہیں۔

لیکن اسرائیل حماس جنگ میں دروز کمیونٹی کی جانب سے جنگ میں شرکت اور اسرائیل کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے واقعات کے بعد اسرائیلی حکام کے رویے میں نرمی دیکھی جا رہی ہے۔

اسرائیل کے وزیر داخلہ موشے اربیل نے حال ہی میں دورز کمیونٹی کے ایک قصبے دالیہ الکرمل کے ایک اٹارنی کو دروز برادریوں کے گھروں اور تعمیرات کے مسائل پر مشیر کے طور پر تعینات کیا ہے۔ پیر کے روز اس سلسلے میں کمیٹی کے اجلاس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ حکومت ادلیہ الکرمل میں ایک ہزار گھروں کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ہفتے کے روز کہا کہ دروز ایک بہت قابل قدر کمیونٹی ہے۔ وہ ہمارے لیے لڑ رہے ہیں اور جنگ میں مر رہے ہیں۔

انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ انہیں وہ سب کچھ دیں گے جس کے وہ مستحق ہیں۔

اس تحریر کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG