رسائی کے لنکس

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: پاکستانی حکومت کیا کر سکتی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین اسے عالمی قوانین اور بھارت کے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔

بین الاقوامی قانون کے ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کے آئین کی شق 370 اور پاکستان کے آئین کی شق 257 کے تحت یہ طے ہے کہ کشمیر منتازعہ علاقہ ہے جسے کوئی ملک یک طرفہ طور پر ختم یا تبدیل نہیں کرسکتا۔

بھارت کی حکومت نے پیر کے روز آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہو جائے گی۔

اس تبدیلی کے بعد جموں و کشمیر کے داخلی امور وزیر اعلیٰ کی بجائے براہ راست مرکزی وزیر داخلہ کے تحت آ جائیں گے جنھیں ایک لیفٹننٹ جنرل کے ذریعے چلایا جائے گا۔

بھارتی حکومت کی طرف سے اس تبدیلی کے بعد ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک تصفیہ طلب تنازعہ ہے اور بھارتی حکومت کے اس یکطرفہ اقدام سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب شمشاد احمد کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر میں کی جانے والی تبدیلی پر پاکستانی حکومت اقوام متحدہ سے رابطہ کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو اقوام متحدہ کے پانچ مستقل رکن ممالک امریکہ، چین، برطانیہ، روس اور فرانس سے مشاورت کرنا ہو گی جن کی آمادگی کے ساتھ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لیجایا جا سکتا ہے۔

شمشاد احمد کا مزید کہنا ہے کہ بھارت جو کر رہا ہے وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ بھارت کو فوری طور پر فوج کی تعیناتی میں کمی کا کہہ سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے کشمیریوں کی آزادی کے لیے جنگ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ حقیقی طور پر پہلے بھی یہی حالات تھے۔ اب فرق یہ پڑے گا کہ کشمیری مزید طاقت سے جدوجہد کریں گے۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر اور سابق قائم مقام وزیر قانون احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے کی جانے والی اس تبدیلی کے بعد پاکستان کے پاس متعدد آپشنز موجود ہیں جن میں سے ایک آپشن اقوام متحدہ کے چارٹر کے نیچے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے رابطہ ہے کیونکہ 1998 میں منظور کردہ قرارداد میں یہ مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان باہمی مشاورت سے مسئلہ کشمیر کو حل کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی حکومت کا کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ بھارت کے اپنے آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق آرٹیکل 370 بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے جسے تبدیل یا منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے پہلے جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور پھر بھارت کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن وہاں سے ناکامی کے بعد انتظامی بنیادوں پر آئین میں تبدیلی کی کوشش کی گئی ہے۔

احمر بلال کے مطابق دوسرا آپشن اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل خود ہے جس کے طے کردہ قوانین جو کہ پندہ قراردادوں میں پائے جاتے ہیں، بھارتی حکومت کی طرف سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ ان قوانین (قراردادوں) کی خلاف ورزی ہے۔

حکومت پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے

احمر بلال کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اسے فوری طور پر بھارت کے ساتھ رسمی طور پر اٹھانا چاہیئے کیونکہ بھارت شملہ معاہدے اور لاہور معاہدے کے مطابق پاکستان کے ساتھ معاملات کو دو طرفہ رضامندی سے حل کرنے کا پابند ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کو بھارت سے پوچھنا چاہیئے کہ جن معاملات کو دونوں ممالک رضامندی سے حل کرنے کے پابند ہیں، آرٹیکل 370 کو بھارت نے یک طرفہ طور پر کیسے تبدیل کر دیا؟

سابق وفاقی وزیر قانون کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کو یہ کہے کہ بہتر یہ ہوتا کہ اگر بھارت نے آئین میں تبدیلی کرنی ہی تھی تو وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تصفیہ کرتا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 257 اور بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 رکھے ہی اس لیے گئے تھے کہ تنازع کشمیر تصفیہ طلب ہے۔ احمر بلال کا مزید کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت بات چیت کے ذریعے آئین میں ترامیم کرتے (چاہے وہ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں کی جاتیں) تو زیادہ بہتر ہوتا۔

یاد رہے کہ بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی نے 2019 کے انتخابی منشور "سنکلپت بھارت" میں آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG