رسائی کے لنکس

بھارت کا روس یوکرین تنازع کے حل میں ممکنہ کردار کیا ہو سکتا ہے؟


یوکرین پر حملے کے بعد سے بھارت نے روس کےا س اقدام کی براہِ راست مذمت سے گریز کیا ہے۔( فائل فوٹو)
یوکرین پر حملے کے بعد سے بھارت نے روس کےا س اقدام کی براہِ راست مذمت سے گریز کیا ہے۔( فائل فوٹو)

بھارت نے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے غیر جانب دارانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق روس اور یوکرین دونوں سے خوشگوار تعلقات کی وجہ سے فریقین کے درمیان مصالحت میں بھارت کے کردار کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

بھارت میں آسٹریلیا کے سفیر بیری او فیرل نے کہا ہے کہ چار ممالک (امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا) کے گروپ کواڈ کے اراکین نے یوکرین کے سلسلے میں بھارت کے مؤقف کو تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے اتوار کو نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی روس اور یوکرین کے درمیان تنازع ختم کرنےکے لیے بات چیت کر رہے ہیں اور اگر جنگ ختم ہوتی ہے تو کوئی بھی ملک ناخوش نہیں ہوگا۔ان کا یہ بیان آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن کے پیر کو اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ ہونے والے ورچوئل مذاکرات سے ایک روز قبل آیا تھا۔

آسٹریلیا کے سفیر سے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بھارت کے مؤقف سے متعلق مغربی ممالک میں عدم اطمینان اور بھارت کے روس سے رعایتی شرح پر خام تیل کی خریداری کے سلسلے میں سوال پوچھا گیا تھا۔

ادھر سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یوکرین پر حملے کے سلسلے میں بھارت کا مؤقف ملک کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی 1957 میں وضع کردہ ’غیر وابستگی‘ کی پالیسی کے مطابق ہے۔ اس پالیسی کی رُو سے بھارت کسی تنازع میں براہِ راست مذمت یا کسی ایک فریق کی واضح حمایت کے بجائے تنازعات کے حل میں اپنے لیے کوئی کردار تلاش کرتا ہے۔ سرد جنگ کے دوران بھارت اسی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت نے یوکرین پر حملے کےبعد تاحال روس کی مذمت نہیں کی۔ اس نے علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے احترام پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اقوامِ متحدہ کے مختلف فورمز پر روسی حملے کی مذمت میں پیش کی جانے والی قراردادوں پر ووٹنگ میں حصہ بھی نہیں لیا ہے۔

بھارتی مؤقف پر آرا

کواڈ ممالک کے باقی تینوں اراکین امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کی ہے۔ مغربی ممالک بھی روسی جارحیت کے خلاف ہیں۔ امریکہ اور مغربی ملکوں کا بھارت سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت میں واضح مؤقف اختیار کرے۔

مبصرین کے مطابق بھارت فریقین پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور گفت و شنید سے مسائل حل کریں۔ اس کے علاوہ وہ روس سے رعایتی نرخ پر خام تیل خریدنے پر بھی غور کر رہا ہے۔

اس سے قبل وائٹ ہاوس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ اگر بھارت روس سے رعایتی نرخ پر تیل خریدتا ہے تو اس سے ماسکو پر عائد امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں ہو گی البتہ تمام ممالک کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ دیکھا جائے گا کہ آپ کس جانب کھڑے تھے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اتوار کو عوامی اجتماع میں اپنے ایک خطاب کے دوران یوکرین روس تنازعے میں بھار ت کے مؤقف کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں آج بھارت کو داد دیتا ہوں کہ اس نے ہمیشہ ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کواڈ گروپ کا رکن ہے لیکن اس نے خود کو غیر جانب دار رکھا ہے۔ وہ روس سے، جس کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے، تیل درآمد کر رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی عوام کی بہتری کے لیے ہے۔

نام لینے سے گریز

دریں اثنا جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کیشیدہ نے ہفتے کے روز نئی دہلی کا دورہ کیا اور اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ دوطرفہ اور بین الاقوامی امور پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

انہوں نے وزیرِ اعظم مودی سے اپیل کی کہ وہ یوکرین پر روسی حملے کے خلاف سخت مؤقف اختیار کریں۔

انہوں نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ روس کی جارحیت نے عالمی نظام کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور اس کے خلاف سختی سے پیش آنا چاہیے۔اس موقعے پر موجود بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ان کی اپیل پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔

بعدازاں دونوں ممالک کے مشترکہ بیان میں روس کی جارحیت کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ جنگ اور یوکرین میں انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور فوری طور پر جنگ بند کر کے مذاکرات سے تنازع حل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنما یوکرین میں انسانی بحران کو دور کرنے کے سلسلے میں مناسب اقدامات کریں گے۔

دونوں وزرائے اعظم کی مشترکہ نیوز کانفرنس میں نریندر مودی نے یوکرین بحران کا براہِ راست ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جیو پولیٹکل واقعات نئے چیلنجز پیش کر رہے ہیں۔

ادھر پیر کے روز آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ورچوئل میٹنگ کی۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ اور عالمی امور پر تبادلۂ خیال کیا۔

آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ یوکرین پر حملے اور انسانی جانوں کے تکلیف دہ ضیاع پر روس کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ وزیرِ اعظم مودی نے حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے باہمی رشتوں کے فروغ کا ذکر کیا۔

بھارت کا ممکنہ کردار

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار رہیش سنگھ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت نے اس معاملے پر جو غیر جانب دارانہ مؤقف اختیار کیا اور جس طرح وزیرِ اعظم نریندر مودی نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے مذاکرات کیے ہیں اس کے پیشِ نظر ہر ملک اب یہ بات سمجھنے لگا ہے کہ یوکرین اور روس کے معاملے میں بھارت ہی امن عمل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

ان کے مطابق امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے بیانات سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کو مصالحانہ کوششیں کرنی چاہیئں۔ یوکرین کے صدر بھی یہی چاہتے ہیں اور پوٹن بھی اس کے حق میں ہیں۔

ان کے بقول وزیرِ اعظم نریندر مودی پہلے ہی سے ثالثی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ پوٹن سے بات کرتے اور نہ ہی زیلنسکی سے۔ بھارت نے اقوامِ متحدہ کے مختلف فورمز پر یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت قیامِ امن کی ضرورت ہے اور اگر کسی ایک فریق کی حمایت کی جائے گی تو اس میں دشواری ہو گی۔

رہیش سنگھ کے مطابق یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو افواج کیا کرتی ہیں کیوں کہ یہ جنگ صرف روس اور یوکرین کے درمیان نہیں ہے بلکہ روس اور مغربی ممالک کے درمیان ہے جس کا میدان یوکرین بن گیا ہے۔

انہو ں نے بھارت میں آسٹریلیا کے سفیر کے اس بیان پر کہ کواڈ گروپ نے بھارت کے مؤقف کو تسلیم کیا ہے، کہا کہ کواڈ کے سلسلے میں ایسا کوئی بیان نہیں دینا چاہیے کیوں کہ کواڈ کوئی اسٹریٹجک شراکت داری نہیں ہے۔ اس کا مقصد انڈو پیسفک میں آزادانہ اور کھلی رسائی اور سلامتی کو یقینی بناناتھا۔ بھارت یوکرین روس جنگ کے تناظر میں یہ بات کہہ چکا ہے کہ کواڈ کو اپنےاسی مقصد تک محدود رہنا چاہیے۔

ان کے مطابق بھارت اپنے قومی مفادات اور سفارت کاری کو فوقیت دیتا ہے۔ اس کے ساتھ بھارت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ روس ہمارا روایتی دوست ہے۔ بھارت اپنی 80 فی صد دفاعی ضرورتیں روس سے پوری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم مودی اس جنگ کو ختم کرانا چاہتے ہیں۔ وہ پوٹن اور زیلنسکی دونوں سے بات کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے بقول بھارت کے جاپان کے ساتھ تعلقات بھی دو طرفہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور جاپان کا جو مشترکہ بیان آیا ہے وہ انہیں خطوط پر دیا گیا ہے۔ البتہ جاپان انفرادی طور پر بھارت سے کہہ سکتا ہے کہ وہ روسی جارحیت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرے۔

ان کے مطابق مشترکہ بیان میں روس کی مذمت نہیں کی جا سکتی تھی۔ کیوں کہ مشترکہ بیان ایک طرح کا سفارتی مسودہ ہوتا ہے لہٰذا اس میں ایسی باتوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کا مؤقف یہ ہے کہ اگر بھارت کسی ایک فریق کی طرف کھڑا ہو جائے گا تو دوسرا فریق مزید ردِعمل کا اظہار کرے گا۔

’بھارت کے پاس متبادل نہیں‘

نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹڈیز‘ سے وابستہ ڈاکٹر تارا کارتھا نے نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے مضمون میں تحریر کیاہے کہ بھارت کے مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ نہ کھڑا ہو۔

ان کے مطابق بھارت کے سامنے اس کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے کہ وہ فریقین سے جنگ بند کرنے اور مذاکرات سے یہ تنازع حل کرنے پر زور دے۔

یاد رہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد وزیرِ اعظم مودی نے صدر پوٹن اور صدر زیلنسکی سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور ان سے فوری طور پر جنگ بند کرکے مذاکرات کی اپیل کی ہے۔

رپورٹس کے مطابق اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ثالثی کی کوششوں کے لیے نئی دہلی کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل نائب مندوب آر رویندرا نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت دونوں ممالک کے رابطے میں ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر، عالمی قوانین اور خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا جانا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG