رسائی کے لنکس

بھارت، کینیڈا سفارتی کشیدگی کا نئی دہلی پر کیا اثر پڑے گا؟


کینیڈا کی جانب سے خالصتان تحریک کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزام اور سفارت کاروں کی ملک بدری کو نئی دہلی کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی مغربی ملک کی حکومت نے بھارت پر تشدد اور کسی مطلوب رہنما کے قتل میں براہِ راست ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔

ان کے خیال میں اس سے عالمی سطح پر بھارت کی مبینہ کامیاب سفارت کاری کا اعتبار مجروح ہوا ہے۔

رواں برس 18 جون کو کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کے کلچرل سینٹر میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔

کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کو الزام عائد کیا تھا کہ سکھ رہنما کے قتل میں بھارت کےملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔

ماضی میں پاکستان کی جانب سے بھارت پر اس قسم کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جن کی بھارت نے ہمیشہ تردید کی ہے۔

بیان سے پہلے حلیفوں کو اطلاع

کینیڈا کے خبر رساں ادارے 'سی بی سی نیوز' کی رپورٹ کے مطابق جسٹن ٹروڈو نے پیر کو پارلیمنٹ میں بیان دینے سے قبل برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک، فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں اور امریکی صدر جو بائیڈن سمیت کینیڈا کے قریبی حلیف ممالک کے رہنماؤں کو اس معاملے سے باخبر کیا تھا۔

اس تنازع سے کینیڈا اور بھارت کے سفارتی تعلقات کو دھچکا لگا ہے۔ نئی دہلی نے کینیڈا کی جانب سے بھارت کی اعلیٰ انٹیلی جنس شخصیت کو ملک بدر کرنے کے بدلے ایک کینیڈین سفارت کار کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈا کی حکومت نے عوامی طور پر مذکورہ الزام کے شواہد تاحال پیش نہیں کیے ہیں۔ البتہ وزارتِ خارجہ نے ملک بدر کیے جانے والے سفارت کار کا نام پون کمار رائے بتایا ہے جو کہ اوٹاوا میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات تھے۔

کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی نے کہا ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا معاملہ اقوامِ متحدہ میں گروپ سیون کے ارکان کے سامنے بھی اٹھایا جائے گا۔

امریکہ نے بھارت اور کینیڈا کے درمیان پیش آنے والے اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ "ہم کینیڈا کی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔"

تنازع سے دونوں ملکوں کی تجارت متاثر ہونے کا خدشہ

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس واقعے سے باہمی رشتے متاثر ہوئے ہیں اور دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ اس تنازع کو حل کریں۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے سیاسی و معاشی مفادات کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے تعلقات بہتر رہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر مذاکرات ہونے والے تھے لیکن اسے روک دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق بھارت متعدد اشیا کینیڈا سے درآمد کرتا ہے۔ مسور کی دال اور خوردنی تیل کی درآمد بڑی مقدار میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں یورینیم اور معدنیات کے ذخائر ہیں جن سے مستقبل میں بھارت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

ان کے مطابق کینیڈا بھی بھارت کو ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ تاہم مذکورہ واقعے نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دی ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران بھارت اور کینیڈا کی باہمی تجارت کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ 2023-2022 میں دونوں کی باہمی تجارت کا حجم 8.16 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

بھارت کینیڈا کو ادویات، زیورات، کپڑے اور مشینری برآمد کرتا ہے جب کہ کینیڈا بھارت کو دالیں، لکڑی اور کاغذ بنانے میں استعمال ہونے والا گودا فراہم کرتا ہے۔

دونوں ملکوں میں مضبوط تعلیمی رشتے بھی ہیں۔ کینیڈا کے تعلیمی اداروں میں تین لاکھ 19 ہزار بھارتی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کینیڈین بیورو آف انٹرنیشنل ایجوکیشن (سی بی آئی ای) کے مطابق سال 2021 میں بھارتی طلبہ نے کینیڈا کی معیشت میں 4.9 ارب ڈالر کا تعاون کیا تھا۔

مقامی سیاست کا دخل

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تعداد میں سکھ برادری آباد ہے جو کہ مقامی آبادی کا دو فی صد ہے۔ وہاں کی کابینہ میں متعدد سکھ وزیر شامل ہیں۔ لہٰذا وہاں کی حکومت سکھ برادری کے مفادات کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔

تجزیہ کار ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ جی20 اجلاس کے موقع پر کینیڈا میں حزبِ اختلاف کی جانب سے جسٹن ٹروڈو پر بھارت میں کینیڈا کے مفادات سے سمجھوتہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس معاملے میں وہاں کی مقامی سیاست کا بھی دخل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ تنازع کو حل کرنے کے لیے بھارت کو پہل کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں بھی مقامی سیاست کا معاملہ ہے۔ چوں کہ بھارت خالصتان تحریک کا مخالف ہے اس لیے اس معاملے میں کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔


جی20 اجلاس کے موقع پر ٹروڈو کے ساتھ بھارت کا رویہ

ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ وہ جی20 اجلاس کے موقع پر کینیڈا کے وزیرِ اعظم کے ساتھ برتے جانے والے رویے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ بھارت کی میزبانی میں نو اور دس ستمبر کو جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر جسٹن ٹروڈو کے طیارے میں تیکنیکی خرابی آ گئی تھی جس کی وجہ سے انہیں اپنے ملک سے دوسرا طیارہ منگوانا پڑا تھا۔ اس کی وجہ سے انہیں بغیر پروگرام کے دو روز تک نئی دہلی میں ہی قیام کرنا پڑا تھا۔ اس دوران وہ اپنے ہوٹل میں مقیم رہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی میں جسٹن ٹروڈو کے ہوٹل میں قیام کے دوران بھارتی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ قائم نہیں کیا۔ تاہم بعد میں بھارت نے انھیں طیارہ فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔

بھارت کی عالمی ساکھ کو دھچکا

تجزیہ کار دیوی روپا مترا نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘پر اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھتی ہیں کہ جسٹن ٹروڈو کے سنگین الزام کے بعد نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں کے باہمی رشتے مزید کشیدہ ہو گئے ہیں بلکہ اس سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو دھچکا بھی لگا ہے۔ ان کے مطابق بھارت پر کینیڈا کے الزام کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال کو غیر معمولی قرار دیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ عالمی سفارت کاری میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن انہیں حل کر لیا جاتا ہے۔ وہ اس سلسلے میں کینیڈا اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے باہمی مذاکرات سے روابط بحال کر لیے تھے۔

ان کے خیال میں امریکہ سے کینیڈا کے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے باہمی تعلقات بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے خیال میں اس واقعے کا بھارت اورامریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

'خالصتان تحریک کے دوبارہ اٹھنے کا امکان نہیں'

بعض حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بھارت اور اس کی ریاست پنجاب میں خالصتان کی تحریک دوبارہ اٹھ سکتی ہے؟

اس بارے میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جی20 اجلاس کے موقع پر دہلی میں دیواروں پر خالصتان حامی نعرے لکھے گئے تھے۔ لیکن اس واقعے کے بعد بھارت میں خالصتان تحریک کے دوبارہ سر اٹھانے کے امکانات نہیں ہیں۔

پنجاب کی سکھ برادری خالصتان تحریک کی مخالف ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے مطابق پنجاب کے عوام خالصتانی تحریک کے سنگین نتائج بھگت رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے حامی نہیں ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG