رسائی کے لنکس

جب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ صرف 18 نشستیں رکھنے والی جماعت کو دی گئی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیرِ اعظم عمران خان نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کو نامزد کر دیا ہے جن کی جماعت مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی میں صرف 10 نشستیں ہیں۔ لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل بھی پنجاب میں ایک بار 18 نشستوں والی جماعت کا اُمیدوار وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو چکا ہے۔

یہ 1993 کی بات ہے جب مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی حکومت بنی تھی اور مسلم لیگ(ن) کو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا پڑا تھا۔ اس وقت پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیاسی کشمکش کے باعث قرعہ فال مسلم لیگ (جونیجو) کے نام نکلا تھا اور میاں منظور احمد وٹو پیپلز پارٹی کے ساتھ صوبے کی مخلوط حکومت کے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے۔ بدلے میں پیپلز پارٹی کو صوبائی کابینہ میں بڑا حصہ دیا گیا تھا۔

سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے 1993 میں انتقال کے بعد مسلم لیگ (جونیجو) کی کمان حامد ناصر چٹھہ نےسنبھالی تھی۔ مسلم لیگ کا یہ دھڑا میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں موجود مسلم لیگ (ن) سے ہی الگ ہو کر وجود میں آیا تھا۔

اس وقت کے حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے مسلم لیگ (جونیجو) کے اس وقت کے اہم رہنما میاں عطا مانیکا کہتے ہیں کہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 100 سے زائد نشستیں تھی جب کہ مسلم لیگ (ن) کی نشستوں کی تعداد بھی کم و بیش یہی تھی۔ ایسے میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ (جونیجو) کا کردار اہمیت اختیار کر گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے میاں عطا مانیکا نے بتایا کہ مرکز میں پیپلز پارٹی حکومت بنا چکی تھی جب کہ پنجاب میں بھی اس نے حکومت بنانے اور اپنا وزیرِ اعلیٰ لانے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے بقول اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہو۔

میاں عطا مانیکا کے بقول یہی وجہ تھی کہ جس طرح آج کے حالات میں مسلم لیگ (ق) پنجاب اسمبلی میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے، تو اسی طرح اس اسمبلی میں مسلم لیگ (جونیجو) کے پاس یہ طاقت تھی اور اس نے اس کا فائدہ اُٹھایا۔

میاں منظور وٹو 1993 سے 1996 کے دوران پنجاب کے وزیرِ اعلٰی رہے تھے۔
میاں منظور وٹو 1993 سے 1996 کے دوران پنجاب کے وزیرِ اعلٰی رہے تھے۔

البتہ اُن کے بقول مسلم لیگ (جونیجو) کے باہمی اختلافات کی وجہ سے لگ بھگ ایک برس کے لیے سردار عارف نکئی بھی وزیرِ اعلیٰ پنجاب رہے۔ لیکن جب نومبر 1996 میں صدر فاروق لغاری نے قومی اسمبلی تحلیل کی تو چاروں صوبوں کے گورنرز نے بھی اس وقت صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور یوں اس مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوا۔

عطا مانیکا کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی بھی یہی خواہش تھی کہ پنجاب میں کوئی ڈمی وزیرِ اعلیٰ لے آئیں۔ ان کے بقول جس طرح اب بھی یہ روایت ہے کہ اسلام آباد سے پنجاب کو چلایا جائے تو اس وقت بے نظیر نے بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی تھی۔

سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اس دور میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی کشمکش عروج پر تھی۔ اس وقت مسلم لیگ (جونیجو) کے پاس سیاسی طاقت تھی کہ وہ جس کے ساتھ جاتی وہ جماعت پنجاب میں حکومت بنا سکتی تھی۔

اُن کے بقول کیوں کہ وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت بن رہی تھی تو اس وقت جونیجو لیگ نے فیصلہ کیا کہ وہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دےجس کے عوض اُنہیں وزارتِ اعلیٰ دے دی گئی۔

سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی معتمد خاص سمجھی جانے والی ناہید خان کہتی ہیں کہ اس وقت منظور وٹو وزیرِ اعلیٰ تو بن گئے تھے البتہ پیپلز پارٹی کے وزرا ان سے خوش نہیں تھے اور وہ بے نظیر بھٹو سے شکوے شکایات کرتے تھے۔ شکایتیں بڑھنے کے بعد بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو تجویز دی کہ وہ منظور وٹو سے کہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔

اُن کے بقول صدر فاروق لغاری نے گورنر پنجاب کو ہدایت کی جس کے بعد آرٹیکل 234 کے تحت میاں منظور وٹو سے کہا گیا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ لیکن وہ حسبِ توقع ناکام رہے اور پھر سردار عارف نکئی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنایا گیا۔

ناہید خان کہتی ہیں کہ منظور وٹو کو ہٹانے کے بعد پیپلزپارٹی نے کوشش کی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مخدوم الطاف کو وزیرِ اعلیٰ بنایا جائے لیکن مسلم لیگ (جونیجو) کے سربراہ حامد ناصر چٹھہ کا اصرار تھا کہ وزیرِ اعلیٰ اُن کی جماعت سے ہی ہو گا جس کے بعد پیپلزپارٹی نے سردار عارف نکئی کی حمایت کی۔

یوں 1993 سے لے کر 1996 تک پنجاب میں 18 نشستوں والی جماعت کا وزیرِ اعلیٰ رہا۔

کیا 1993ء کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے؟

عطا مانیکا کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ البتہ موجودہ حالات میں اُن کے لیے پنجاب میں نمبر گیم پورا کرنا مشکل ہو گا۔

اُن کے بقول 1993 میں بھی اسی طرح سیاسی جوڑ توڑ جاری تھا اور مسلم لیگ (ن) کے اس وقت پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی حکومت سازی کی کوشش کی تھی۔ لیکن وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اپنی کوششوں میں کامیاب رہی تھی۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے پنجاب میں اراکینِ اسمبلی پارٹی قائدین کے ساتھ کھڑے تھے۔ البتہ اب صورتِ حال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندر بھی دراڑیں ہیں جب کہ اپوزیشن کے اندر بھی صورتِ حال واضح نہیں ہے۔ عمران خان کی اپنی جماعت پر گرفت پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔

اُن کے بقول ایسے حالات میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا چوہدری پرویز الہٰی پنجاب کا تخت سنبھال سکیں گے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے مؤثر دھڑوں نے بھی پرویز الہٰی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ نے بھی ابھی فیصلہ کرنا ہے لہذٰا چوہدری پرویز الہٰی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اُن کے بقول چوہدری پرویز الہٰی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور مسلم لیگ (ن) میں بھی شگاف ڈال سکتے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے پانچ یا چھ اراکین چوہدری پرویز الہٰی سے رابطے میں ہیں۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگر وفاق میں تحریکِ عدم اعتما دکامیاب ہو جاتی ہے تو پھر پنجاب میں اپوزیشن اراکین کو توڑنا مشکل ہوگا۔

ناہید خان کہتی ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور ان کے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے بھی ہیں۔ لہذٰا وہ اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

'حالات میں بہت فرق ہے'

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس وقت اور اب کے حالات میں بہت فرق ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس وقت وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت مستحکم تھی لہذٰا پنجاب میں جوڑ توڑ کرنے میں اسے کسی قسم کی دُشواری نہیں ہوئی۔

اُن کے بقول اس دور میں وزارتِ اعلیٰ چھوٹی پارٹی کو دےدی گئی تھی لیکن پنجاب کابینہ میں بیشتر وزرا کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہی تھا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کے لیے پہلا مرحلہ وفاق میں تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کا ہو گا جس کے بعد ہی وہ پنجاب کے وزیرِ اعلٰی بننے کے لیے بہتر پوزیشن میں آ جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG