رسائی کے لنکس

شام میں 200 امریکی فوجی موجود رہیں گے: وائٹ ہاؤس


امریکی فوجی دستے کی گاڑیاں ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع شامی علاقے میں گشت کر رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
امریکی فوجی دستے کی گاڑیاں ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع شامی علاقے میں گشت کر رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ شام سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی تقریباً 200 فوجی اہلکار وہاں موجود رہیں گے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ امریکی فوج کا ایک چھوٹا دستہ قیامِ امن کی غرض سے "کچھ عرصےکے لیے" شام میں موجود رہے گا۔

بیان میں اس بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ صحافیوں نے اس اعلان کی تفصیل جاننے کے لیے امریکی محکمۂ دفاع سے بھی رابطہ کیا لیکن 'پینٹاگون' کے حکام نے کہا ہے کہ اس بارے میں سوالات کا جواب 'وائٹ ہاؤس' ہی دے گا۔

شام میں اس وقت لگ بھگ دو ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو وہاں شدت پسند تنظیم داعش کے باقی ماندہ جنگجووں اور ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے کرد اور دیگر باغی ملیشیاؤں کی مدد کر رہے ہیں۔

داعش کو گزشتہ ایک سال کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فضائی اور زمینی کارروائیوں کی وجہ سے شام اور عراق میں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ اپنے بیشتر زیرِ قبضہ علاقوں سے محروم ہوچکی ہے۔

داعش کی اس شکست کے پیشِ نظر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال دسمبر میں داعش کے خلاف فتح کا اعلان کرتے ہوئے شام میں تعینات امریکی فوجیوں کو اپریل 2019ء تک وطن واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن ان کے اس اعلان پر خود امریکہ میں کئی حلقوں اور داعش کےخلاف جنگ میں امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا جن کا مؤقف ہے کہ داعش کی مکمل شکست اب بھی دور ہے۔

امریکہ کے اتحادی اور خود کانگریس کے کئی ارکان کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوجیوں کے جلد انخلا کے نتیجے میں داعش ایک بار پھر شام میں قدم جما سکتی ہے اور شام کا بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔

امریکہ کے یورپی اتحادی کہہ چکے ہیں کہ وہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا پورا کرنے سے قاصر ہیں۔

لیکن امریکہ کے عبوری وزیرِ دفاع پیٹرک شناہن کا کہناہے کہ امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے شام میں بطور مبصر اپنی فوجی موجودگی برقرا رکھنے کا امکان یکسر مسترد نہیں کیا ہے۔

پیٹرک شناہن نے جمعرات کو پینٹاگون میں بیلجیم کے وزیرِ دفاع ڈیڈیئر رینڈرز سے ملاقات کی تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے داعش کے خلاف جنگ پر تبادلۂ خیال کیا۔

بیلجیم داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں قائم کثیر الملکی اتحاد کا حصہ ہے۔ ملاقات کے بعد بیلجین وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ امریکہ کے اتحادی شام میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے بھی جمعرات کو ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ٹیلی فون پر شام سے امریکی فوج کے انخلا اور وہاں کی سکیورٹی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے شام میں 'سیف زون' کے قیام کے لیے کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں شامی کردوں کو ترکی کے ممکنہ حملے سے بچایا جاسکے گا۔

ترکی کا موقف ہے کہ شامی کرد ترکی میں سرگرم کردستان ورکرز پارٹی کے اتحادی ہیں جو ترکی کے کرد اکثریتی علاقے کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔

ترکی کا مطالبہ رہا ہے کہ وہ شام کی سرحد پر بفر زون کے قیام کا خواہش مند ہے تاکہ شامی کرد جنگجووں کو ترکی کی سرحد سے دور رکھا جاسکے۔

XS
SM
MD
LG