رسائی کے لنکس

'امریکہ چاہتا ہے اسرائیل حماس جنگ لبنان تک نہ پھیلے'


لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نےاسرائیلی فوج پر متعدد حملے کیے ہیں جس پر اسرائیلی فورسز نے بھی جوابی کارروائی کی ہے۔ (فائل فوٹو)
لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نےاسرائیلی فوج پر متعدد حملے کیے ہیں جس پر اسرائیلی فورسز نے بھی جوابی کارروائی کی ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے منگل کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کا اچانک دورہ کیا اور حکام سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ لبنان تک نہ پھیلے۔

امریکہ کے صدر جوبائیڈن کے سینئر مشیر اموس ہو چیسٹین نے یہ بات لبنانی پارلیمان کے اسپیکر اور نگراں وزیرِ اعظم کے ساتھ بیروت کے ایسے دورے میں کی جس کا پہلے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

ہو چیسٹین نے پارلیمان کے اسپیکر نبیہ بیری سے ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ کہ لبنان کی جنوبی سرحد پر امن بحال کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

دو روز قبل ایک اسرائیلی حملے میں لبنانی خاتون اور اس کی تین پوتیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔

حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی جانب سے اعلانِ جنگ کے بعد لبنانی عسکری گرہ حزب اللہ کے جنگجوؤں کا اسرائیل کی جانب فائرنگ جب کہ اسرائیلی فورسز کی جوابی کارروائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

امریکی سفارت کار نے دورۂ لبنان کے موقع پر کہا کہ انہوں نے لبنان اسرائیل سرحد پر کشیدگی کے حوالے سے لبنانی اسپیکر کے خدشات کو سنا ہے۔

ہو چیسٹین نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ امریکہ غزہ کے تصادم کو لبنان تک بڑھتا اور پھیلتا نہیں دیکھنا چاہتا۔

البتہ انہوں نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔

کیا حزب اللہ اسرائیل حماس جنگ میں شامل ہوگی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:15 0:00

ہوچیسٹین نے یہ باتیں ایسے موقع پر کی ہیں جب منگل کو اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

اسرائیل ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجو گروپ حزب اللہ کو اپنے لیے ایک فوری سنگین خطرہ سمجھتا ہے اور اس کا اندازہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس کوئی ڈیڑھ لاکھ راکٹ اور میزائل ہیں جنکا رخ اسرائیل کی جانب ہے۔اس کے علاوہ حزب اللہ کے پاس مختلف اقسام کے ڈرونز اور زمین سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل بھی ہیں۔

امریکی سفارت کار نے لبنان کے سابق انٹیلی جنس چیف عباس ابراہیم سے بھی ملاقات کی۔

عباس ابراہیم پیر کے روز ہی قطر سے واپس آئے ہیں۔

عباس ابراہیم نے جو پہلے بھی یرغمالوں کے سلسلے میں مذاکارات کر چکے ہیں ،حال ہی میں کہا تھا کہ وہ یرغمالیوں کی صورتِ حال کے سلسلے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے کوئی تفصیل بتانے سے انکار کردیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ حماس اور امریکی عہدیداروں سے رابطے میں ہیں۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG