رسائی کے لنکس

امیر جماعت اسلامی سراج الحق پرحملے میں کون ملوث ہوسکتا ہے؟


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع ژوب میں جماعت اسلامی کے قافلے میں مبینہ خود کش حملے میں جماعت کے امیر سراج الحق تو محفوظ رہے لیکن ملک کے سیکیورٹی اداروں اور مذہبی حلقوں میں اس معاملے پر بحث جاری ہے کہ اس اہم مذہبی جماعت کی ریلی کو کیوں اور کس نے نشانہ بنایا؟

یہ حملہ جمعے کی سہ پہر اس وقت کیا گیا جب سراج الحق ضلع ژوب میں ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لیے جا رہے تھے۔

جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکریٹری امیرالعظیم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پراس حملے کو 'خودکش' قرار دیا ہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے لگ بھگ 335 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ژوب ایک پختون اکثریتی ضلع ہے جس کی سرحد افغانستان کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے لگتی ہے۔

جماعت اسلامی کے مقامی رکن ہادی مندوخیل نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ سراج الحق بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی اوردیگر صوبائی رہنمائوں کے ہمراہ ژوب میں جلسے میں شرکت کے لیے شہر سے باہر کچھ کلومیٹر دور کوئٹہ روڈ پہنچے تھے۔

ان کے بقول"حملے میں سراج الحق سمیت قیادت محفوظ رہی البتہ چھ سے سات افراد شدید زخمی ہوئے جنہیں فوری طورپر ضلعی اسپتال لے جایا گیا۔"

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی وضلعی اتنظامیہ کی جانب سے بھی جلسے سے قبل کوئی تھریٹ الرٹ جاری نہیں کیا گیا تھا جبکہ جلسے کے انتظامات بھی مکمل تھے۔

اس حملے کے باوجود سراج الحق نے ژوب میں جلسے سے خطاب کیا۔

جماعت اسلامی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤںٹ پر اس دھماکے کی ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب سراج الحق کی گاڑی کے قریب کارکن جمع ہو رہے تھے تو اسی دوران اچانک دھماکا ہوتا ہے اور دھواں اٹھتا ہے جس کے بعد لوگ بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس فوٹیج میں ایک شخص زمین پر لیٹا ہوا دیکھا جاسکتا ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ خود کش حملہ آور تھا۔

خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے سراج الحق جماعت اسلامی کی مرکزی نظامت سے قبل خیبر پختونخوا کے امیر رہے ہیں اور ماضی میں خیبرپختونخوا حکومت میں سینئر وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

اگرچہ جماعت اسلامی کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا لیکن صوبائی حکومت اور پولیس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا کہ آیا یہ خودکش حملہ تھا یا قافلے پر کسی نے دستی بم پھینکا تھا۔

البتہ پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور مارا گیا ہے۔

ژوب کے مقامی ایس ایچ او شیر علی کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خود کش حملہ تھا کیوں کہ حملہ آور نے بارود سے بھری جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔

حملے میں کون ملوث ہوسکتا ہے؟

کوئٹہ میں تعینات قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک افسر کا کہناہے کہ بلوچستان کے پختون اکثریتی علاقوں میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد مذہبی شدت پسند تنظیموں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے لیے بلوچستان کے پختون اکثریتی علاقوں میں حملے کرنا مشکل ہے اس لیے پختون علاقوں میں ٹی ٹی پی اوردیگر تنظیموں کی بڑھتی ہوئی شدت پسندانہ سرگرمیوں کومدنظر رکھتے ہوئے ہی سراج الحق پرحملے کی تحقیقات کی جارہی ہے۔"

ٹی ٹی پی نے گزشتہ برس کوئٹہ سے چمن اور ژوب تک پھیلے ہوئے پختون علاقوں کے لیے ایک الگ تنظیمی شاخ 'صوبہ ژوب' تشکیل دیا ہے جس کی سربراہی شدت پسند تنظیم کے اہم رہنما اور پشاور کے سابق کمانڈر سربکف مہمند کو دی گئی ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے حملے کے کچھ گھنٹے بعد جاری بیان میں سراج الحق پرحملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم حملے کے مذمت کرتے ہیں۔

محمد خراسانی نے کہا کہ "ہم پہلے بھی بارہا واضح کرچکے ہیں کہ دینی و سیاسی جماعتیں ہمارے اہداف میں شامل نہیں ہیں۔ ایسی کارروائیاں پاکستان کے خفیہ ادارے اور ملک میں موجود اسلام دشمن عناصر کرتے ہیں تاکہ مجاہدین کو بدنام کیا جائے۔"

سنگاپور کے ایس راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ محقق عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی گروہ نے امیر جماعت اسلامی پرحملے کی باقاعدہ ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جبکہ ٹی ٹی پی کی جانب سے حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا جاچکاہے اور ایسا لگ رہاہے کہ کوئی بھی گروہ سراج الحق پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گا۔

وائس اف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ "ایسی صورت حال میں امیرجماعت اسلامی پرحملے میں حال ہی وجود میں آنے والی شدت پسند تنظیم تحریک جہاد پاکستان یا داعش کی مقامی شاخ کے ملوث ہونے کے امکانات نظر اتے ہیں۔"

تحریک جہاد پاکستان نے بلوچستان کے افغان سرحد پرواقع شہر چمن میں فروری میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے قیام کا اعلان کیا تھا۔

بارہ مئی کو ژوب سے ملحقہ ضلع قلعہ سیف اللہ میں واقع ایف سی کے مسلم باغ کیمپ میں تحریک جہاد پاکستان کی جانب سے ایک بڑا دہشت گرد حملہ کیا گیا تھا۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر )کے مطابق ایف سی کمپائونڈ میں کلیئرنس آپریشن کے دوران چھ دہشت گرد مارے گئے تھے جبکہ سات سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

عبدالباسط کے مطابق "ٹی ٹی پی ایک حکمت عملی کے تحت عام شہریوں پر حملے نہ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے جب کہ تحریک جہادِ پاکستان کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی یا حافظ گل بہادر گروہ کی طرح ایک نیا دھڑا ہے جو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ دیگر اہداف کو بھی نشانہ بناتی ہے۔"

کوئٹہ میں افغانستان کے شدت پسند گروہوں کے معاملات سے باخبر ایک مذہبی رہنما نے کہاکہ اسلام آباد میں افغان طالبان حکومت کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی سے حالیہ ملاقات کی بنا پر سراج الحق پر یہ حملہ ممکنہ طورپر داعش کی مقامی شاخ نے کیا ہوگا۔

خیال رہے کہ چھ مئی کو اسلام آباد کا دورہ کرنے والے امیر خان متقی سے ملاقات کرنے والوں میں سراج الحق کے علاوہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اورعوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی بھی شامل تھے۔

مذہبی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ داعش افغان طالبان کواپنا دشمن سمجھتی ہے اوراپنے جرائد میں پاکستانی رہنمائوں اورعلمائے کرام کو افغان طالبان سے روابط پر شدید تنقید کانشانہ بناتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ داعش کی مقامی شاخ گزشتہ ایک سال سے خیبرپختونخواکے ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مقامی رہنمائوں پر افغان طالبان سے تعلق کی بنیاد پر حملے کررہی ہے۔

خیال رہے کہ داعش پاکستان شاخ نے جمعہ کے روز بلوچستان ہی کے ضلع مستونگ میں پولیو ٹیم کی سیکیورٹی پرتعینات ایک پولیس اہلکار کی حملے میں ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

جماعت اسلامی پر حملے

جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق پر ہونے والا حملہ پہلا نہیں ہے۔

اس سے قبل نومبر 2012 میں سابق قبائلی ضلع مہمند میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں حملہ آور خاتون تھیں۔

قاضی حسین احمد اس حملے میں محفوظ رہے تھے جبکہ اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

قاضی حسین احمد کے افغانستان اور پاکستان کے طالبان کے حوالے سے ایک بیان کے نتیجے میں اپریل 2012 میں ٹی ٹی پی کے اس وقت کے مرکزی امیر حکیم اللہ محسود نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ "جماعت اسلامی پاکستان میں طالبان کے جاری جہاد کو فساد قرار دیتی ہے اور خودکش حملوں کو حرام سمجھتی ہے۔"

اپریل 2010 میں جماعت اسلامی پشاور کی ایک مہنگائی مخالف ریلی پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ جماعت اسلامی سے وابستہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں فعال تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ ایک کمانڈر میجر مست گل بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوگئے تھے۔

میجرمست گل نے 1995 ء میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تاریخی چرارشریف کے مزار پربھارتی افواج کے گھیراؤ سے زندہ بچ کر نکلنے پر شہرت پائی تھی۔ کافی عرصہ غائب رہنے کے بعد وہ فروری 2014 کو ٹی ٹی پی کے بینرکے نیچے تنظیم کے رہنما مفتی حسان کے ہمراہ شمالی وزیرستان میں نظر آئے تھے جہاں انہوں نے پشاور میں شیعہ کمیونٹی پرایک حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG