رسائی کے لنکس

جیو کی نشریات تک رسائی میں رکاوٹ، طاقت ور کون؟


کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر سول انتظامیہ ایک چینل کی نشریات بھی نہیں کھلوا سکتی تو ملک میں اصل طاقت پھر کس کے پاس ہے؟

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے ریگولیٹری ادارے 'پیمرا' کی ہدایت کے باوجود ملک کے ایک بڑے نجی ٹیلی ویژن چینل 'جیو' کی نشریات گزشتہ ہفتے سے ملک کے بیشتر حصوں میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے بند ہیں یا صارفین کو نشریات تک رسائی میں دشواری ہے۔

جہاں جہاں جیو کی نشریات آ رہی ہیں وہاں بھی کیبل آپریٹرز نے اس چینل کو اس کی اصل پوزیشن سے کہیں زیادہ نچلے نمبروں پر سیٹ کردیا ہے۔

اس صورتِ حال پر سینئر صحافیوں اور سوشل میڈیا کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ متعلقہ اتھارٹی کے احکامات کے باجود جیو کی نشریات کی بندش سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کتنی بے بس اور کمزور ہے۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے دو اپریل کو ایک بیان میں وضاحت کی تھی کہ پیمرا نے کسی بھی چینل کی بندش یا پوزیشن میں تبدیلی کے کوئی احکامات جاری نہیں کیے۔

پیمرا نے اپنے ایک بیان میں وطین ملٹی میڈیا لاہور اور ورلڈ کال کیبل لاہور اور کراچی کے لائسنسوں کی معطلی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام آپریٹرز کو ہدایت کی تھی کہ وہ جیو کے تمام چینلز کو 24 گھنٹوں کے اندر اصل پوزیشن پر بحال کریں، بصورت دیگر پیمرا آڈیننس کے سیکشن 30 کے تحت لائسنسوں کی منسوخی کے عمل کا آغاز کر دیا جائے گا۔

اس واضح ہدایت کے باوجود صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اب بھی ملک کے بیشتر علاقوں میں جیو نظر نہیں آرہا۔

اس صورتِ حال پر سینئر صحافی ضیاالدین کا کہنا ہے کہ ایسے ’ہتھکنڈوں‘ کے منفی اثرات ہی ہوتے ہیں۔

منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ وہ جیو یا اس گروپ کے اخبارات کی ایڈیٹوریل پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے لیکن اُن کے بقول اس کے باجود کسی ادارے کی نشریات بند کرنا قطعاً قابلِ قبول نہیں۔

"آج کل کی ٹیکنالوجی کے دور میں اس قسم کی ہتھکنڈے جو ہیں اُن کے منفی اثرات ہوتے ہیں، بدنامی ہی ہو رہی ہے۔"

اُنھوں نے کہا کہ "لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فوج نے ہی (جیو کی نشریات) بند کروائی ہوں گی۔ بدنامی تو اُن کی ہو رہی ہے جب تک وہ آ کر یہ کہتے نہیں کہ ہم یہ نہیں کر رہے ہیں۔۔۔ یہ بے معنی سے بدنامی ہے کیوں کہ عام آدمی سوشل میڈیا پر جیو دیکھ رہا ہے۔"

سوشل میڈیا یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک سرگرم کارکن فرحان حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پیمرا کی ہدایت کے باوجود جیو کی نشریات کی بندش بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

"یہ تو کافی شرمناک بات ہے کہ اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ آپ نشریات بحال کریں اور وہ نہیں ہو رہی ہیں تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کون لوگ ہیں جن کی مرضی سے یہ ہو رہا ہے۔"

فرحان حسین کے بقول یہ جاننے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ وہ "کون لوگ ہیں جو حکومت سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں۔"

واضح رہے کہ نشریاتی اداروں کی تنظیم 'پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن' (پی بی اے) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بغیر قانونی طریقۂ کار کے لائسنس یافتہ چینل کی نشریات کی بندش نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ آئین کے تحت دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔

لیکن ان تمام بیانات کے باجود صورتِ حال جوں کی توں ہے اور کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر سول انتظامیہ ایک چینل کی نشریات بھی نہیں کھلوا سکتی تو ملک میں اصل طاقت پھر کس کے پاس ہے؟

XS
SM
MD
LG