رسائی کے لنکس

پاکستان میں ایک بار پھر اٹھارہویں ترمیم کیوں زیرِ بحث ہے؟


پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کی بازگشت ہے۔ یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر سے ایسے وقت میں موضوعِ بحث ہے جب عام انتخابات میں تین ماہ سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور پر کام کر رہی ہیں۔

پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماؤں سے منسوب بیانات چلائے جا رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلیوں کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔

پارٹی ترجمان مریم اورنگزیب نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تاثر کی نفی کی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ خبروں کی زینت بنا ہو، اس سے پہلے بھی بعض مواقع پر یہ معاملہ سامنے آتا رہا ہے اور اس پر بحث جاری رہتی ہے۔

خیال رہے کہ 2010 میں آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا تھا۔ وفاق کی جانب سے صوبوں کو دی جانے والی رقوم کے لیے بنائے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں بھی ردوبدل گیا تھا۔

اٹھارہویں ترمیم ہے کیا؟

اس ترمیم کے تحت 1973 کے آئین میں تقریباً 100 کے قریب تبدیلیاں کی گئی تھیں جن میں صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو منتقل کرنا، دو مرتبہ سے زائد وزیرِاعظم بننے پر پابندی کا خاتمہ اور وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو منتقل کرنا اہم ہیں۔

اِس کے علاوہ تعلیم، صحت، ثقافت، ماحولیات، خوراک و زراعت سمیت متعدد شعبوں میں صوبوں کو خودمختاری دے دی گئی تھی۔

اِسی ترمیم کے تحت ریاست اور آئین سے غداری میں ملوث افراد کے لیے مزید سخت سزائیں تجویز کی گئیں تھیں۔

اٹھارہویں ترمیم آٹھ اپریل 2010 کو قومی اسمبلی جب کہ 15 اپریل 2010 کو سینیٹ آف پاکستان سے اُس وقت منظور ہوئی جب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات ہیں جب کہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اسے چھیڑا گیا تو صوبوں کا احساسِ محرومی بڑھے گا۔

'نئی اسمبلی میں 18 ویں ترمیم سے چھیڑچھاڑ کی کوشش ہو سکتی ہے'

انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سابق چیئرپرسن حنا جیلانی کہتی ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کا مقصد پاکستان کو بطور ملک ایک مضبوط فیڈریشن کی طرف لے جانا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں یہ مائنڈ سیٹ موجود ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی کچھ شقوں میں ردوبدل اسے مزید طاقت ور بنا دے گی جس سے اس کا کنٹرول مزید بڑھے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں بھی اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کے توسط سے یہی بیانیہ اپنانا شروع کیا تھا۔

اُن کے بقول اٹھارہویں ترمیم پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور سویلین کنٹرول کو تحفظ دیتی ہے۔

حنا جیلانی کے بقول جن جماعتوں پر اسٹیبلشمنٹ سے قربتوں کا الزام لگ رہا ہے۔ اُنہیں آئندہ اسمبلی میں استعمال کر کے 18 ویں ترمیم سے چھیڑچھاڑ کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

'اگر کسی کے تحفظات ہیں تو وہ دُور ہونے چاہئیں'

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم آئین کا حصہ ہے اور پارلیمان کے پاس دو تہائی اکثریت کے ذریعے اس میں تبدیلی کا اختیار ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی اسٹیک ہولڈر کو 18 ویں ترمیم کی کچھ شقوں سے متعلق کچھ تحفظات ہیں تو وہ دُور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لحاظ سے 18 ویں ترمیم میں تبدیلیوں کی بات کرتی ہیں۔ کچھ کو یہ تحفظات ہیں کہ صوبوں کو ضرورت سے زیادہ خودمختاری دے دی گئی ہے جس سے وفاق کمزور ہوا ہے۔

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ سمیت کچھ اسٹیک ہولڈرز کو یہ اعتراض ہے کہ اہم پالیسی معاملات میں یکسوئی کی راہ میں 18 ویں ترمیم کی کچھ شقیں رکاوٹ بنتی ہیں۔

خیال رہے کہ کرونا وبا کے دوران پی ٹی آئی حکومت کے کچھ وزرا نے 18 ویں ترمیم پر نظرِثانی کا عندیہ دیا تھا، لیکن اُس وقت کی حزبِ اختلاف نے ایسی کسی بھی کوشش کی مخالفت کا اعلان کیا تھا۔

اس وقت بھی یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے وفاق اور صوبوں کے اقدامات میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب بعض ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے باعث وفاق کی آمدن کم ہونے سے اسٹیبلشمنٹ کو تحفظات ہیں۔

ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ فوج ایک ڈسپلن اور سینٹرلائزڈ ادارہ ہے اور وہ چیزوں کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔

'صوبے مزاحمت کریں گے'

سینئر قانون دان کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ اگر 18 ویں ترمیم میں تبدیلیوں کی کوشش کی گئی تو صوبے مزاحمت کریں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت ایسی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرے گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کی بعض شقوں پر بات ہو سکتی ہے، لیکن اسے سرے سے ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

سیاسی جماعتوں کا کردار

حنا جیلانی سمجھتی ہیں کہ یہ اب سیاسی جماعتوں اور سیاسی قوتوں پر ہے کہ وہ ملک کے مفادات کی خاطر کس حد تک کام کرتی ہیں کیوں کہ ایک مضبوط فیڈریشن بنانے کے لیے صوبائی خود مختاری بہت اہم ہوتی ہے۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے کچھ سیاست دان موجود ہیں جو 18 ویں ترمیم میں تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں۔

حنا جیلانی کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت ایسا کرنے کا عندیہ رکھتی ہے تو وہ اپنی انتخابی مہم کو نقصان پہنچائے گی اور یہ ایسا نقصان ہو گا جس کی تلافی ممکن نہیں ہو سکے گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG