رسائی کے لنکس

امریکہ کے لیے پاکستانی سفیر؛ مسعود خان کے نام کی منظوری میں تاخیر کیوں؟


حکومتِ پاکستان نے گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق صدر مسعود خان کو امریکہ کے لیے پاکستانی سفیر کے طور پر نامزد کیا تھا۔
حکومتِ پاکستان نے گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق صدر مسعود خان کو امریکہ کے لیے پاکستانی سفیر کے طور پر نامزد کیا تھا۔

پاکستان کے دفتر ِخارجہ نے بھارت کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ امریکہ نے واشنگٹن کے لیے پاکستان کے نامزد کردہ سفیر مسعود خان کی سفارتی اسناد کی منظور ی کاعمل عارضی طور پرروک دیا ہے۔

پاکستان کے دفتر ِ خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے منگل کو ایک یبان میں کہا کہ مسعود خان ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں اور ان کی سفارتی اسناد کی منظوری کا عمل امریکی نظام کار کے مطابق جاری ہے۔

بھارت کے مختلف ذرائع ابلاغ میں حال ہی میں شائع ہونے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسعود خان کے کشمیر کے حق اور بعض کشمیری علیحدگی پسند عناصر کی حمایت میں دیے گئے بیانات کی وجہ سے امریکہ نے مسعود خان کی پاکستان کے سفیر کے طور پر نامزدگی کی منظوری عارضی طور روک دی ہے۔

ترجمان عاصم افتخار نے اس دعوے کو بے بنیاد اور گمراہ کن قراردیتے ہوے اسے بھارت کی پاکستان کے خلاف مبینہ ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ قراردیا ہے۔ اُن کےالفاظ میں اس مہم کا مقصد مبینہ طور پر پاکستان اور پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں کو بدنام کرناہے۔

یادر ہے کہ اسلام آباد نے گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق صدر مسعود خان کو واشنگٹن میں سفیر نامزد کیا تھا۔ مسعود خان قبل ازیں کئی ممالک میں پاکستان کے سفارت کار کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔


امریکی محکمہٌ خارجہ کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے امریکہ کی طرف سے مسعود خان کی سفارتی اسناد کی منظور ی میں ہونے والی تاخیر کی وجہ سے یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ شاید امریکہ نے ان کی سفارتی اسناد کی منظوری کاعمل عارضی طور پر روک دیا ہے ۔

ری پبلکن رُکن کانگریس کا مسعود خان کی نامزدگی روکنے کے لیے بائیڈن کو خط

دوسری جانب امریکی ریاست پینسلوینیا سے ری پبلکن رکنِ کانگریس اسکاٹ پیر ی نے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مسعود خان کشمیر میں علیحدگی پسند تنظیم حزب المجاہدین سمیت بعض جہادی عناصر کی حمایت کرتے ہیں۔ لہذٰا، ان کی سفارتی اسناد کی منظوری نہ دی جائے۔

اسکاٹ پیری نے مسعود خان کی امریکہ کے لیے پاکستان کے سفیر کے طور پر نامزدگی پر تشویش کا ااظہارکرتے ہوے یہ دعوی کیا کہ وہ خطے میں ہمارے مفادات اور ہمارے اتحادی بھارت کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بنتے رہے ہیں۔

خط میں اسکاٹ پیر ی نے کہا کہ ان کے لیے یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اطلاعات کے مطابق محکمہ خارجہ نے مسعود خان کی نامزدگی کی توثیق کرنے کے عمل کو عارضی طور پرروک دیا ہے۔ لیکن ان کےنزدیک یہ کافی نہیں۔ بلکہ انہوں نے صدر بائیڈن پر مسعود خان کی سفارتی اسناد مسترد کرنے پر زور دیا ہے۔

تاہم ابھی تک باضابطہ طورپر مسعود خان کی نامزدگی کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ ان کی بطور سفیر نامزدگی کی توثیق میں تاخیر کی وجہ کیا ہے۔

پاکستان نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ہی تقرری کی ہے'

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ مسعود خان کی نامزدگی معمول کے طریقۂ کار کے مطابق ہوئی ہے۔ انہوں کہا کہ ہر حکومت کا اختیار ہوتا ہے کہ کسی شخص کی بطور سفیر نامزدگی کو قبول کریں یا مسترد کریں۔

اُن کے بقول حکومت نے مسعود خان کی نامزدگی سے قبل ان ممکنہ رکاوٹوں کا جائزہ لیا ہو گا ، لہذٰا اس معاملے پر قیاس آرائیاں نہیں کرنی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ مسعود خان چین اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر کام کر چکے ہیں اس کے علاوہ وہ امریکہ میں کئی سال تک بھی پاکستان کے نائب سفیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

مسعود خان کی نامزدگی کی توثیق میں تاخیر ایک ا یسے وقت ہورہی جب مبصرین کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تعلقات افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد بظاہر سردی مہری کا شکار ہیں۔

'میزبان ملک نامزدگی کی توثیق میں وقت لے سکتا ہے'

پاکستان کے سابق سفیر شاہد امین کا کہنا ہے کہ سفارتی روایت رہی ہے کہ ایک ملک جب دوسر ے ملک میں کسی شخص کو اپنا سفیر نامزد کرتا ہےتو میزبان ملک کا یہ حق ہے کہ وہ اس تقرری کی منظوری دینے میں وقت لے سکتا ہے اور اس میں وقت لگ سکتا ہے۔

لیکن ان کےبقول بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ مسعود خان کے معاملے میں امریکہ معمول سے زیادہ وقت لے رہا ہے جو ایک غیر معمولی بات ہے کیوں کہ ماضی میں ایسا کم ہی ہوا ہے۔

شاہد امین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں امریکی محکمۂ خارجہ ہی وضاحت کر سکتا ہے کہ مسعود خان کے نام کی منظوری میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسعود خان پاکستان کے ایک کریئر سفارت کار رہے ہیں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔

شاہد امین کا یہ بھی کہنا ہےکہ کشمیر کی حمایت میں ان کابیان کوئی نئی بات نہیں ہے عمومی طور پر پاکستان کے عہدیدار ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔

وہ نہیں سمجھتے کہ ان بیانات کی وجہ سے مسعود خان کی واشنگٹن میں پاکستان سفیر کی طور پر تقرری رک جائے گی۔
'

'امریکہ پاکستان کے تعلقات فی الحال بہت زیادہ مضبوط نہیں ہونے والے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:36 0:00

'بھارت کے حامی حلقے نامزدگی کی مخالفت کر رہے ہیں'

بین الااقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ مسعود خان کی واشنگٹن ڈی سی میں بطور پاکستان کےسفیر کی تقرری اس وقت ہو سکتی ہے جب امریکہ کی حکومت اس کی منظوری دے گی۔

اُن کےمطابق عام طور پر پاکستان اور امریکہ کے سفارت کاروں کی تقرری میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ ان کے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بھارت کے حامی حلقے شاید کشمیر سے متعلق ان کےبیانات اور مؤقف کی وجہ سے ان کی تقرری کی مخالفت کر رہے ہیں۔

حسن عسکری کے خیا ل میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید امریکی حکومت پاکستان پر دباؤ رکھنا چاہتی ہے ۔ حسن عسکری کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا عندیہ ہو سکتی ہے کہ تعلقات میں کوئی منفی پہلو ہے اور اسی وجہ سے ایسے معاملات میں تاخیر ہوجاتی ہے ۔

حسن عسکری کا کہنا ہے کہ یہ ایک عمومی بات ہے کہ بعض اوقات حکومتیں نامزد سفارت کاروں کی شخصیت پر اعتراض کرتی ہیں اور بعض اوقات باہمی تعلقات کی وجہ سے فیصلے کرنے میں تاخیر کر دیتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG