رسائی کے لنکس

بلوچ علیحدگی پسند خواتین کو خود کش حملوں کے لیے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟


 سمیعہ بلوچ نامی خود کش حملہ آور کی تصویر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے جاری کی تھی۔
سمیعہ بلوچ نامی خود کش حملہ آور کی تصویر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے جاری کی تھی۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر تربت میں ہفتے کو ایک خاتون خود کش حملہ آور کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے نے ایک بار پھر کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی بلوچ خاتون خود کش حملہ آور نے کوئی کارروائی کی ہو۔ گزشتہ برس اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون خود کش حملہ آور نے چینی اساتذہ کی وین کے قریب خود کو اُڑا لیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بلوچستان میں فعال کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے جس دھڑے نےاس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی اس کے سربراہ بشیر زیب ہیں۔

تربت پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ کا مرکزی شہر ہے جہاں بم دھماکوں سمیت بدامنی کے دیگر واقعات کے علاوہ سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔

لیکن ہفتے کو شہر میں چاکراعظم چوک پر سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ مختلف نوعیت کا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچھ دیر میں ہی معلوم ہوا کہ یہ دھماکہ خودکش تھا اوریہ سمیعہ بلوچ نامی ایک خاتون نے کیا ہے۔

ضلعی پولیس سربراہ محمد بلوچ کا کہناہے کہ حملے میں پولیس وین کو نشانہ بنایاگیا جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک خاتون کانسٹیبل سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے۔ حملے میں جس خودکش جیکٹ کا استعمال کیا تھا اس میں تقریباً چار کلو گرام بارودی مواد اور بال بیرنگز استعمال کیے گئے تھے۔

بی ایل اے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں ہفتے کو خودکش حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا کہ خودکش حملے کا ہدف پولیس اہلکار نہیں بلکہ خفیہ ادارے کے افسران کا قافلہ تھا-

'خاندان کے کسی فرد کو اندازہ نہیں تھا کہ شاری بلوچ یہ کر گزرے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00

سمعیہ بلوچ کون تھیں؟

ہفتے کو تربت میں خودکش حملہ کرنے والی سمیعہ بلوچ کون تھیں اور اُنہوں نے خودکش حملہ کیوں کیا؟

ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے خضدار، تربت اورکراچی میں بلوچ عسکریت پسندی میں فعال گروہوں پر تحقیق کرنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں، سیاسی کارکنوں اورصحافیوں سے بات چیت کی اوربی ایل اے کے سوشل میڈیا پرموجود مواد کا جائزہ لیا۔

بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کی جانب سے جاری اعلامیے میں سمیعہ بلوچ کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حملہ ’’بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی 25 سالہ سمیعہ قلندرانی نے کیا جن کا تعلق خضدار کے علاقے توتک سے تھا۔"


اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’سمیعہ قلندرانی بی ایل اے کے سابق سربراہ اسلم بلوچ عرف اچھو کے بیٹے ریحان بلوچ کی منگیتر تھیں۔‘‘

خیال رہے کہ بی ایل اے کے سربراہ اسلم بلوچ عرف اچھو دسمبر 2018 میں افغانستان کے شہر قندھار میں ایک خودکش حملے میں اپنے پانچ ساتھیوں سمیت ہلاک ہوئے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد بشیر زیب، بی ایل اے کے سربراہ نامزد ہوئے۔

اسلم بلوچ عرف اچھو نے ہی مجید بریگیڈ قائم کی تھی جس کا مقصد خودکش حملوں کے ذریعے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اورچینی مفادات کو نشانہ بناناہے۔


رسمی طورپر اس تنظیم کے قیام کا اعلان مارچ 2010 میں کیا گیا تھا لیکن اس کی پہلی سرگرمی 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ میں سامنے آئی تھی۔

اگست 2018 میں بلوچستان کے شہر دالبندین میں چینی انجینئروں کے قافلے پر ہونے والے ایک خودکش حملے میں اسلم بلوچ عرف اچھو کے صاحبزادے ریحان بلوچ نے حصہ لیا تھا۔ بی ایل اے سمیعہ قلندرانی کو ریحان بلوچ کی منگتیر قرار دے رہی ہے۔

ٹوئٹر پرسمیعہ بلوچ کے اکاؤنٹ سے ہفتے ہی کو آخری ٹوئٹ لکھی گئی جس میں وہ بندوق تھامے کھڑی ہیں اور ساتھ ہی یہ لکھا ہے کہ ـ"الوداع نہیں کہوں گی کیوں کہ ہم ایک ساتھ ہیں۔"


ٹوئٹر پروفائل میں سمعیہ بلوچ کے بائیو میں ’’بلوچستان کی بیٹی اورصحافت کی طالبِ علم‘‘ لکھا ہواہے۔

بلوچ عسکریت پسندی کے حامی ذرائع وابلاغ کا مطالعہ کرنے والے ایک محقق نے بتایا کہ سمیعہ بلوچ بی ایل اے کے میڈیا ونگ سے وابستہ رہی ہیں اور اُنہوں نے بلوچستان پوسٹ نامی عسکریت پسندی کی حامی ویب سائٹ پر متعدد مضامین بھی لکھے ہیں۔

نومبر 2019 میں ریحان بلوچ کے بارے میں سمیعہ بلوچ نے ’’مشتر معنبر ریحان‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ فروری 2011 میں توتک کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں ان کے کم عمر چچا اوررشتے دار ہلاک جب کہ ان کے دادا سمیت متعد افراد لاپتا ہوگئے تھے۔

خضدار سے پارلیمانی سیاست کرنے والے ایک بلوچ قوم پرست جماعت کے سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ کوبتایاکہ سمیعہ قلندرانی کا خاندان عسکریت پسندوں کے حامیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

سن 2011 میں سیکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے بعد ان کے دادا رحیم بلوچ، چچا ڈاکٹر طاہر اور چچا زاد بھائی لاپتا ہیں۔

'اللہ سے مدد کی اپیل کرتی ہوں کہ میرا بیٹا گھر واپس آجائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:54 0:00

خیال رہے کہ 2014 میں توتک ہی کے علاقے سے اجتماعی قبروں سے متعدد لاشیں ملی تھی جن میں بیشتر لاشیں ناقابلِ شناخت تھی۔

بلوچستان حکومت نے اجتماعی قبر اور وہاں سے لاشوں کی برآمدگی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل عدالتی ٹریبونل قائم کیا تھا۔

سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر نام شائع نہ کرنے کی شرط پر خضدار کے ایک سیاسی رہنما نے بتایا کہ ’’توتک کے واقعے کے بعد سمیعہ بلوچ کا خاندان کسی نامعلوم مقام منتقل ہوگیا تھا اورہو سکتا ہے کہ وہاں ان کی ملاقات اسلم اچھو اور اس کے بیٹے سے ہوئی ہو۔‘‘

کیا بلوچ عسکریت پسندی میں خواتین کیوں شامل ہو رہی ہیں؟

حملے کے بعد بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے اپنے سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے ایک تصویر میں سات خواتین کو اسلحہ سمیت تربیت کرتے دکھایا ہے اور کہا ہے کہ ’’مجید بریگیڈ کے سینکڑوں فدائین جن میں خواتین بھی شامل ہیں، دشمنوں پرحملے کے لیے تیار ہیں۔‘‘


خضدار کے سیاسی رہنما نے کہا کہ ’’بلوچ عسکریت پسند تنظیموں میں اب تک صرف بشیر زیب کے بی ایل اے کے دھڑے نے مجید بریگیڈ کے ذریعے خودکش اور فدائین حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں خواتین بھی استعمال ہو رہی ہیں۔‘‘

ان کے بقول ’’زیرزمین تنظیموں کے بارے میں معلومات کافی مشکل ہوتی ہیں مگریہ بات طے ہے کہ مجید بریگیڈ کی صفوں میں بلوچ خواتین موجود ہیں البتہ ان کی شمولیت کے محرکات مختلف ہوتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ سمیعہ بلوچ تو اپنے دادا اور رشتے داروں کی جبری گمشدگی یا ممکنہ ہلاکت کے باعث انتقام کے طورپر بی ایل اے کے خودکش اسکواڈ کا حصہ بنیں، لیکن شاری بلوچ تو ایک معاشی طورپرخوش حال تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی تھیں اوران کے خاندان کا کوئی فرد کسی بھی قسم کے مبینہ ریاستی آپریشن سے بھی متاثرہ نہیں تھا۔"

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے تربت میں بی ایل اے کی جانب سے خاتون کوخودکش حملے میں استعمال کرنے کے حوالے سے کہا کہ ’’اس طرح کے واقعات ہمارے دین، مذہب اور قبائلی روایات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جب خواتین دہشت گردوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو روایتی قبائلی مسائل اٹھائے جاتے ہیں۔


خیال رہے کہ رواں سال فروری میں کوئٹہ میں پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے سیٹلائٹ ٹاؤن لیڈیز پارک کے قریب کارروائی کرتے ہوئے ماہل بلوچ نامی خاتون گرفتار کیا تھا۔

مذکورہ خاتون پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ خودکش حملے کے لیے تیار کی گئی عسکریت پسند ہے اوران کے شوہر کاتعلق اللہ نذر بلوچ کی کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ سے ہے۔

البتہ مئی میں بلوچستان ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پررہا کردیا۔

اس سے قبل پچھلے سال مئی میں سی ٹی ڈی نے ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ سے حراست میں لی جانے والی خاتون نورجہاں بلوچ پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ ایک خود کش حملے کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔

نورجہاں کی گرفتاری کے خلاف ہوشاپ میں مظاہرین نے گوادر اور کوئٹہ کے درمیان شاہراہ کو بطور احتجاج دو روز بند رکھا۔ بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہوگئیں۔

ہفتے کو خودکش حملے کے بعد تربت ہی سے دو خواتین کو حراست میں لیا گیا جن کے رشتے دار بلوچ عسکریت پسند گروہوں سے وابستہ ہیں اورمبینہ طور پرایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ البتہ مقامی ذرائع کے مطابق انہیں رہا کردیا گیاہے۔

خواتین کا خودکش حملوں میں استعمال کیوں؟

سنگاپور کے ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں محقق کے طورپر وابستہ عبدالباسط کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے خواتین کی طرف سے خودکش حملے کے ذریعے دہشت گردی کرنے کا پتا لگانا مشکل اور اسے روکنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔‘‘

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’خواتین خودکش بمباروں کا استعمال بیک وقت شدت پسند گروہوں کی طاقت اور کمزوری کا اظہار کرتا ہے۔‘‘

ان کے بقول ’’جب یہ گروہ روایتی دہشت گردی کے طریقوں سے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ خواتین خودکش بمباروں کو استعمال کرتے ہیں۔‘‘

عبدالباسط کہتے ہیں کہ خودکش حملے روایتی دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ ہلاکت خیز ہوتے ہیں۔

ان کے بقول ’’عسکریت پسندخواتین ،پرہجوم علاقوں میں مردوں کی نسبت زیادہ آگے تک پہنچ سکتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے روایتی مذہبی معاشروں میں خواتین کو ممکنہ طور پر کم سخت حفاظتی چیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

کراچی میں شاری بلوچ کی تحقیقات سے وابستہ ایک انٹیلی جینس افسر عبدالباسط کی بات سے متفق نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عسکریت پسند گروہ ، خواتین خودکش بمباروں کی شمولیت کی حکمتِ عملی سے فائدہ اُٹھاتے رہتے ہیں۔

ان کے بقول ’’خواتین کے مخصوص لباس اور برقعہ کا استعمال جس میں سر سے پاؤں تک جسم ڈھانپا جاتاہے خواتین خودکش بمباروں کو ایک فائدہ فراہم کرتا ہے کیوں کہ وہ لباس کے نیچے خودکش جیکٹ پہن سکتی ہیں جس کا قانون نافذ کرنے والے ادارے پتا نہیں لگا سکتے۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’پولیس اورقانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں میں اتنی خواتین نہیں ہیں کہ خاتون خودکش حملہ آوروں کے سیکیورٹی کے اس منظرنامے سے نمٹ سکیں۔"

پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ

پاکستان میں سیکیورٹی امور کا جائزہ لینے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں خواتین کے ذریعے دہشت گردی کوئی نئی بات نہیں ہے۔

پاکستان میں خودکش حملے ویسے تو 2002 میں شروع ہوئے مگر کسی خاتون کی طرف سے پہلا خودکش حملہ 2010 میں ہوا جب کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک برقعہ پوش خاتون عسکریت پسند نے باجوڑ میں خود کش حملہ کیا۔ اس حملے میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت خوراک کی تقسیم کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا جس میں 45 افراد ہلاک ہوئے۔

جون 2011 میں ایک ازبک خاتون نے خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے پولیس اسٹیشن کے قریب خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا تھا۔


اگست 2011 میں پشاور میں ایک کنٹرولڈ بم دھماکے کے بعد جب پولیس افسران جائزہ لینے جائے مقام پراکھٹے ہوئے تو ایک خاتون نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دونوں دھماکوں میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔

جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد پر 2012 میں خیبرپختونخوا کے ضلع مہمند میں جواس وقت قبائلی ایجنسی تھی،ایک خاتون نے خودکش حملہ کیا تھا۔ قاضی حسین احمد اس حملے میں محفوظ رہے۔

جون 2013 میں ایک خاتون حملہ آور نے سردار بہادر خان یونیورسٹی کی بس کو کوئٹہ میں نشانہ بنایا جس میں خواتین سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی تھی۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG