رسائی کے لنکس

وکی لیکس کے تازہ انکشافات، عالمی تعلقات کے لیے خطرہ


وکی لیکس کے تازہ انکشافات، عالمی تعلقات کے لیے خطرہ
وکی لیکس کے تازہ انکشافات، عالمی تعلقات کے لیے خطرہ

امریکہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں وکی لیکس نام کی انٹر نیٹ ویب سائٹ نے ڈھائی لاکھ سے زائد ایسی دستاویز عام کرکےسفارتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے، جو خفیہ تو نہیں تھیں مگر امریکی حکومت یہ ضرور چاہتی تھی وہ زیادہ نمایاں نہ ہوں ۔

انٹر نیٹ ویب سائٹ وکی لیکس کی جانب سے امریکی حکومتی اداروں کے خفیہ دستاویزات منظر عام پرلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے حالیہ انکشافات کو عالمی سفارتکاری پر حملہ قرار دیا ہے۔۔ ان دستاویزات میں دنیا بھر کی اہم شخصیات اور سفارتی خط وکتابت پر سے پردہ اٹھنے کے بعد جہاں کئی حکومتوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے وہیں کئی مبصرین کے مطابق بعض ملکوں کے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ وکی لیکس ماضی میں بھی کئی اہم سرکاری رازوں پر مبنی دستاویزات شائع کرچکی ہے ۔ تاہم بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ تازہ انکشافات میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان کے اثرات گہرے ہوسکتے ہیں۔

امریکہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں وکی لیکس نام کی انٹر نیٹ ویب سائٹ نے ڈھائی لاکھ سے زائد ایسی دستاویز عام کرکےسفارتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے، جو خفیہ تو نہیں تھیں مگر امریکی حکومت یہ ضرور چاہتی تھی وہ زیادہ نمایاں نہ ہوں ۔

ایڈمرل مائیک مولن کہتے ہیں کہ آج کل کی دنیا میں اتنی سی معلومات بھی کسی بڑی سٹوری کو اور زیادہ بڑا بنا دیتی ہیں ۔

ان دستاویز میں کئی عالمی رہنماوں کے بارے میں امریکی سفارتکاروں کے بے تکلف تبصرے اوراعلی عہدیداروں کے اہم اجلاسوں کی خفیہ تفصیلات سے لے کر سیکیورٹی کے خطرات تک سبھی کچھ عوام کے سامنے کھول کر رکھنے کا دعوی کیا گیا ہے ۔ دستاویز کے مطابق امریکی سفارتکار مبینہ طور پر روسی صدر ولادی میر پوٹن کو الفا ڈاگ ،فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو بے لباس بادشاہ ،افغان صدر حامد کرزائی کو خوفزدہ انسان کہتے رہے ہیں ۔

دستاویز کے مطابق افغانستان کے نائب صدر نے 52 ملین ڈالر نقد رقم کے ساتھ متحدہ عرب امارات کا سفر کیا تھا ۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی کے یوکرائن کی ایک نرس سکے ساتھ تعلقات، جبکہ شمالی کوریا کے صدر کو ایک موٹا بوڑھا آدمی کہا گیا ۔

دستاویز کے مطابق سعودی شاہ عبداللہ نے ایک موقع پر پاکستان کے صدر زرداری کو ملکی ترقی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں نے وکی لیکس کے انکشافات کو ملکوں کے باہمی تعلقات بگاڑنے کی کوشش قرار دیا ہے ۔

وکی لیکس کا دعوی ہے کہ جاری کی گئی دستاویز میں 1966ء سے فروری دو 2010ء کے درمیان امریکی سفارتکاروں کو بھیجی گئی کیبلز یا ٹیلیگرامز کی ایسی تفصیلات شامل ہیں جو امریکہ کے لئے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہیں، مگر امریکہ کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا کوئی عنصر ان میں شامل نہیں ۔ ڈھائی لاکھ سے زائد ان دستاویز میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی طرف سے بھیجی گئی آٹھ ہزار سے زائد کیبلز کی تفصیلات شامل کرنے کا دعوی کیا گیا ہے، جن کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے دنیا بھر میں اپنے سفارتکاروں کو دوسرے ملکوں کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کا حکم دیا تھا ۔ امریکی وزیر خارجہ نے واشنگٹن میں ترک وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وکی لیکس کے انکشافات کو مسترد کر دیا ۔

انہوں نے کہا کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے وکی لیکس کے انکشافات سے ایک دن پہلے ہی انہیں مسترد کر دیا تھا ۔ لیکن عالمی امور کے ماہرین اس صورتھال کو امریکی سفارتکاری کے لئے دھچکہ قرار دے رہے ہیں ۔

ان خفیہ دستاویز میں زیادہ اہمیت ایران کے ذکر کو دی جا رہی ہے ۔ ایک دستاویز کے مطابق امریکہ کو یقین ہے کہ ایران کے پاس شمالی کوریا سے حاصل کئے ہوئے میزائل ہیں جو مغربی یورپ کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ اس کے جواب میں سعودی شاہ عبد االلہ کی جانب سے امریکہ سے ایران کو سانپ کہہ کر اس کا سر کچلنے کی درخواست کی گئی تھی۔

امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹ کے ایک کیبل کے مطابق امریکہ ایران پر حملہ کر تو دے مگر اس سے ایران کو ایٹمی طاقت بننے میں صرف ایک سے تین سال ہی زیادہ لگیں گے مگر ایرانی قوم متحد ہو جائے گی ۔

وکی لیکس کے بانی جولین اسوانج کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے دور میں ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کے اور ثبوت بھی موجود ہیں ، جو اتنے زیادہ ہیں کہ تمام سابق امریکی صدور کے ادوار میں بھی اتنے نہیں تھے ۔ یہ اوباما انتظامیہ میں آنے والی ایک بہت غیر معمولی اور تشویشناک تبدیلی ہے ، جو آزادی صحافت میں یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی اس کے مطابق کام کرتی ہے ۔

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کا کہنا ہے کہ آئندہ آنے والے ہفتوں میں وہ جو انکشافات سامنے لائیں گے ، ان سے امریکی حکومت میں کاروباری کمپنیوں کی لابنگ ، بد عنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے امریکہ کی چشم پوشی اور ایک برطانوی شہزادے اینڈریو کی ایسی گفتگو کے جھلکیاں ہونگی جو برطانوی شاہی خاندان کو شرمندگی سے دوچار کر سکتی ہے ۔

XS
SM
MD
LG