رسائی کے لنکس

پشاور میں مسیحی خواتین ووٹنگ کے حق سے محروم


پشاور کی مسیحی برادری کی خواتین۔ فائل فوٹو
پشاور کی مسیحی برادری کی خواتین۔ فائل فوٹو

پشاور کی مسیحی خواتین میں سے صرف 21 فیصد کے پاس کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ موجود ہے جس کی وجہ سے 2018 میں ہونے والی عام انتخابات میں وہ ووٹ نہیں ڈال سکیں گی۔ یہ بات پشاور میں سپارک (سوسائٹی برائے تحفظ حقوق اطفال) کی رکن آسیہ عارف نے ایک ورکشاپ کے دوران بتائی۔

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارلحکومت پشاور میں اقلیتوں کے ووٹ کے حق پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں اقلیتی برادری، وکلا، منتخب نمائندوں ، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور فری اینڈ فیئر الیکشن (فافن) کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر پشاور میں ہونے والے ایک سروے کی رپورٹ کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے آسیہ عارف نے کہا کہ پشاور کے علاقے کوہاٹی میں 86 فیصد مرد اور 21 فیصد مسیحی خواتین کے ووٹ الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹر ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد نے 2018 کے انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے میں رضامند ظاہر کی ہے۔

فافن کی جانب سے ظہیر خٹک نے بتایا کہ پشاور میں خواتین کے ووٹ کے اندراج کا تناسب بہت ہی کم ہے۔

فافن کے 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 4 کروڑ 24 لاکھ مردوں کے مقابلے میں صرف 1کروڑ 21 لاکھ خواتین کے ووٹ رجسٹر ہیں جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق مردوں اور عورتوں کا تناسب تقریباً برابر ہے۔

سپارک کے پروگرام مینجر سہیل اختر نے وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ اقلیتی کمیونٹی میں گھر گھر جا کر خواتین میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی پھیلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 31 اپریل تک جن افراد کے پاس نادرا کا قومی شناختی کارڈ ہوگا، صرف وہی 2018 کے انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کرسکے گا۔

سکھ کمیٹی کے چئیرمین اور منارٹی رائٹس کے پریزیڈنٹ رادیش سنگھ ٹونی نے کہا کہ اس وقت ضرورت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں میں اقلیتی خواتین کی نمائندگی شامل کی جائے اور اُن کے کوٹے میں اقلیتی برادری سے ایک خاتون کو بھی شامل کیا جائے۔ جبکہ خواتین ووٹروں کی حوصلہ افزائی کے لئے کم از کم 55 فیصدخواتین کے ووٹوں کے بغیر الیکشن رزلٹ کو کالعدم تصور کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے الیکشن میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو بھی ووٹ کا اور اپنے نمائندے کو انتخاب میں کھڑا کرنے کا حق دیا جانا چاہئیے۔

اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر عارف یوسف نے بتایا کہ حکومت عورتوں کی سیاسی نمائندگی کی خواہاں ہےاور اقلیتوں کی بہتری کے لئے مختلف اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کی تعلیم پر ہماری حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے تاکہ ان کے اور دوسرے پاکستانی عوام کے درمیان امتیاز ختم کیا جاسکے۔

سماجی کارکن عمران ٹکر نے کہا کہ اقلیتوں کے لئے تعلیم و نصاب میں بہتری لانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم و نصاب کا از سر نو جائزه لیکر اس میں موجود اقلیتوں سے متعلق نفرت انگیز مواد نکالے جایئں اور ان کو بھی اس ملک کے عام شہریوں کی طرح کے حقوق دئیے جائیں ۔ اةنہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق مضامین پڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

XS
SM
MD
LG