رسائی کے لنکس

برطانوی انتخابات: تین سیاسی جماعتوں کی تین خواتین رہنما


مبصرین نے یہ بھی کہا کہ حالیہ انتخابات میں خواتین رہنماؤں کی قیادت میں تینوں جماعتوں کا سیاسی مستقبل پہلےکی نسبت زیادہ مستحکم نظر آتا ہے ۔

برطانیہ میں جمعرات، سات مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں خواتین رہنماؤں کی انتخابی مہم کا ذرائع ابلاغ میں خوب ذکر رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابات میں خواتین رہنماؤں کی قیادت میں حصہ لینے والی تین جماعتوں کا سیاسی مستقبل پہلے کی نسبت زیادہ مستحکم نظر آرہا ہے۔

برطانیہ کی تین چھوٹی سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے نتائج پر کتنا اثر انداز ہو سکتی ہیں، اس بارے میں تجزیے بتاتے ہیں کہ 'اسکاٹش نیشنل پارٹی' (ایس این پی) کی رہنما نکولا اسٹرجن، بائیں بازو کی سیاسی جماعت 'گرین پارٹی' کی لیڈر نیٹالی بینٹ اور ویلش سیاسی جماعت 'پلائڈ کمری' کی رہنما لے یان وڈ کو بہتر انتخابی مہم چلانے اور ان کے پارٹی منشور کی وجہ سے ووٹروں کی کافی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔

مبصرین کے اندازوں کے مطابق عام انتخابات کے لیے کھڑے ہونے والے امیدواروں میں ہر چار میں سے ایک امیدوار خاتون ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ مئی کے انتخابات کا نتیجہ پارلیمان کے نقشے کو بڑی حد تک تبدیل کر سکتا ہے۔

حالیہ انتخابات میں تینوں چھوٹی جماعتوں کی رہنما خواتین نے اپنی انتخابی مہم کے دوران خواتین کو سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ مشغول کرنے کے لیے بھر پور محنت کی ہے۔

ٹی وی مباحثوں میں بھی تینوں رہنما خواتین کے درمیان خوشگوار تعلقات اور باہمی تعاون کی جھلک دکھائی دی ہے۔

لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ جمعرات کو انتخابات کا نتیجہ ووٹرز کے اس بارے میں ردعمل کو ظاہر کرے گا کہ آیا عوام محاذ آرائی کی روایتی سیاست پسند کرتے ہیں یا پھر مفاہمتی سیاست کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔

انتخابی مہم کے دوران خواتین رہنماؤں کی جو سیاسی تصویر ابھر کر سامنے آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاست میں خواتین کے مستقبل کو تابناک دیکھنا چاہتی ہیں۔

اسکاٹش سیاسی جماعت کی رہنما نکولا اسٹرجن

ایس این پی کی طرف سے خاتون امیدواروں کی بڑی تعداد حالیہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ نکولا اسٹرجن کی قیادت میں پارٹی نے اسکاٹ لینڈ کے 59 حلقوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں جن میں خواتین امیدواروں کا تناسب 35.6 فیصد ہے۔

ایس این پی کی 14 خاتون امیدوار مسلمان ہیں اور دیگر جماعتوں کی نسبت مسلمان خاتون امیدواروں کا تناسب 'ایس این پی' میں سب سے زیادہ ہے۔

نکولا اسٹرجن حالیہ انتخابات میں مقبول سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ انھیں برطانیہ سے علحیدگی کےخواہش مند اسکاٹش ووٹروں کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

نکولا اسٹرجن کے انتخابی مہم کے بیانات کے مطابق وہ کہتی ہیں کہ اسکاٹ لینڈ کی پہلی خاتون وزیر ہونا میرے لیے ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ میں دوسری عورتوں کے لیے اپنی پوزیشن کو استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔

ان کے منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ کمپنیوں اور اداروں میں صنفی توازن قائم کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ دیگر خواتین کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لائے بغیر اپنے عہدے سے دستبردار ہوئیں تو اسے وہ اپنی ناکامی سمجھیں گی۔

گرین پارٹی کی رہنما نیٹالی بینیٹ

برطانیہ کی کسی بھی سیاسی جماعت کے مقابلے میں گرین پارٹی کی طرف سے سب سے بڑی تعداد میں خواتین امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

گرین پارٹی میں 37.5 فیصد خواتین امیدوار ہیں جن میں سات مسلمان خواتین بھی شامل ہیں۔

نیٹالی بینیٹ 2012ء سے گرین پارٹی کی قیادت کر رہی ہیں۔ ٹی وی مباحثوں انھوں نےکہا کہ میں خواتین کی تاریخ میں خاصی دلچسپی رکھتی ہوں، میری ماں دوسروں کی مدد کیا کرتی تھیں، لہذا عوامی خدمت کو میں اپنے پس منظر کا حصہ سمجھتی ہوں۔

بقول نیٹالی بینیٹ ہماری سیاست میں مردوں کا غلبہ ہے اور تبدیلی لیبر یا قدامت پسند جماعت ٹوریز سے امیدیں وابستہ کرنے سے نہیں آسکتی۔

انھوں نے کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ ٹیلی وژن کے دو مباحثوں میں خواتین رہنماؤں کی مدلل گفتگو کے بعد 18 سے 80 سال کی خواتین کی سیاست میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی ہوگی۔

ویلش پارٹی کی رہنما لی یان وڈ

ویلش سیاسی جماعت 'پلائڈ کمری' کی 90 سالہ تاریخ کی پہلی خاتون رہنما لی یان وڈ ہیں۔

انھیں ویلش سیاست میں متوسط طبقے کی ملازمت پیشہ خواتین کی نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔

لی یان وڈ کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں ویلز کے 40 حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں جن میں خواتین امیدواروں کا تناسب 25 فیصد ہے۔

لے یان وڈ نے ٹی وی مباحثے میں کہا کہ سیاست وسیع تر معاشرے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جہاں امتیازی رویے موجود ہیں۔

ان کے مطابق جتنی زیادہ خواتین سیاست میں شامل ہوں گی، سیاست میں ان کے لیے اضافی جگہ بنے گی، اور اگر آپ ایسا نہیں چاہتے ہیں کہ صرف مراعات یافتہ طبقہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کرے تو آپ کو سیاست میں شامل ہونا پڑے گا۔

لے یان وڈ کا کہنا تھا کہ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیے مضبوط خواتین رہنما موجود ہیں لیکن اس سے بھی آگے جانے کے لیے ابھی طویل راستہ باقی ہے۔

XS
SM
MD
LG