رسائی کے لنکس

بھارت میں خواتین پہلوانوں کا احتجاج؛ میڈلز گنگا میں بہانے کی نوبت کیوں آئی؟


بھارت کے چوٹی کے پہلوان جب منگل کی شام کو اپنے بہادری کے میڈلز اترپردیش کے شہر ہری دوار میں دریائے گنگا میں بہانے کے لیے پہنچے تو وہاں بڑا جذباتی منظر تھا۔ وہ بہت بڑے ہجوم کے درمیان زمین پر بیٹھے اپنے میڈلز اپنے سینے سے لگائے رو رہے تھے اور ان کے حامی انہیں دلاسہ دے رہے تھے۔

اُنہوں نے دھمکی دی تھی کہ چوں کہ حکومت ’ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا‘ کے صدر اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ کو گرفتار کرنے کے ان کے مطالبے کو تسلیم نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک اب ان میڈلز کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی لہٰذا وہ انہیں دریائے گنگا کے سپرد کر دیں گے۔

لیکن جب بھارتیہ کسان یونین کے صدر نریش ٹکیت رات میں آٹھ بجے وہاں پہنچے اور انہوں نے پہلوانوں کو اپنے اس انتہائی قدم سے باز رکھتے ہوئے یہ یقین دلایا کہ وہ اس بارے میں کوشش کریں گے تو انہوں نے اپنا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ انہوں نے اپنے تمام میڈلز ٹکیت کے حوالے کر دیے، برج بھوشن کو گرفتار کرنے کے لیے حکومت کو پانچ روز کا الٹی میٹم دیا اور دہلی واپس آگئے۔

بھارت درجنوں میڈلز سے محروم ہو جاتا

اگر پہلوان اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے ہوتے تو بھارت درجنوں باوقار میڈلز سے محروم ہو جاتا۔

واضح رہے کہ احتجاج میں شامل ساکشی ملک نے اولمپک میں ایک کانسی کا میڈل اور کامن ویلتھ گیمز میں تین میڈلز، ونیش پھوگاٹ نے دو ورلڈ چیمپئن میڈلز، بجرنگ پونیا نے اولمپک میں ایک کانسی کا، چار ورلڈ چیمپئن میڈلز، دو ایشین گیمز میڈلز اور تین کامن ویلتھ گیمز میڈلز اور دیگر متعدد میڈلز جیتے ہیں۔

پہلوانوں کے خلاف پولیس کارروائی

پہلوان 23 اپریل سے نئی دہلی کے جنترمنتر پر دھرنے پر بیٹھے تھے۔

انہوں نے 28 مئی کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر وہاں پہنچ کر ایک خواتین مہا پنچایت یعنی خواتین کے احتجاجی پروگرام کا اعلان کیا تھا۔

لیکن جب وہ پارلیمنٹ کی جانب بڑھنے لگے تو پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں حراست میں لے لیا۔ اس موقع پر کئی خاتون پہلوانوں کو سڑک پر گھسیٹتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

پولیس نے دھرنے پر بیٹھنے والے 109 مظاہرین سمیت 700 افراد کو حراست میں لے لیا جنہیں رات تک چھوڑ دیا گیا۔ پولیس نے پہلوانوں کے خلاف فسادات، کارِ سرکار میں مداخلت اور دیگر متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔

جنسی ہراسانی کا الزام: بھارت میں خواتین ریسلرز کا احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:01 0:00


پولیس نے جنتر منتر کو بھی خالی کرا لیا۔ اس وقت وہاں پولیس کا پہرہ ہے۔ اس نے کہا ہے کہ پہلوانوں کو جنتر منتر پر دھرنا دینے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ درخواست کریں گے تو انہیں دوسری مناسب جگہ دی جائے گی۔

پہلوانوں نے اعلان کیا کہ وہ گھر نہیں جائیں گے بلکہ اب انڈیا گیٹ پر دھرنا دیں گے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انڈیا گیٹ پر بھی دھرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلوان کسان رہنماؤں اور جاٹ برادری کی کھاپ پنچایتوں کے ذمے داروں سے مشاورت کر رہے ہیں تاکہ آگے کی حکمتِ عملی طے کی جا سکے۔

پولیس کارروائی کی مذمت

ادھر انسانی حقوق کے اداروں، سیاست دانوں اور متعدد سماجی و مذہبی جماعتوں نے پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور تجزیہ کار وانی سبرامنیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پولیس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت پر بھی تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت 'بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ' کا نعرہ لگاتی ہے لیکن اسے بیٹیوں کی عزت کی کوئی پروا نہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے بلقیس بانو معاملے کا بھی ذکر کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کی شان بڑھانے والی بیٹیاں ایک ماہ سے زائد عرصے سے دھرنے پر بیٹھی ہیں لیکن حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔ بلکہ اس کے برعکس جن پر الزام ہے انہیں پارلیمنٹ کے افتتاحی پروگرام میں مدعو کیا جاتا ہے اور وہ نئی پارلیمنٹ میں تصویریں بنواتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دھرنے کو ختم کرانا بہت آسان تھا۔ حکومت کے ذمے داران جنتر منتر پر جا کر پہلوانوں سے ملتے اور برج بھوشن شرن کے خلاف کارروائی کا یقین دلاتے تو دھرنا ختم ہو جاتا۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب یہ پہلوان میڈل جیت کر آتے ہیں تو وزیرِ اعظم نریندر مودی ان کے ساتھ فوٹو بنواتے ہیں لیکن جب وہ کشتی فیڈریشن کے صدر اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رُکن پارلیمان کے خلاف جنسی استحصال کا الزام عائد کرتے ہیں تو وہ چپ رہتے ہیں۔


اس معاملے پر پارلیمان میں سوال پوچھنے والے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رکن پارلیمان کنور دانش علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومت خواتین کی فلاح و بہبود کی بات تو کرتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ اسے خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔

ان کے مطابق حکومت برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف اس لیے کارروائی نہیں کر رہی ہے کہ وہ بی جے پی کے ایم پی ہیں، اترپردیش سے تعلق رکھتے ہیں، طاقت ور شخصیت مانے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی سے ایک بڑا طبقہ ناراض ہو سکتا ہے۔

اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر برج بھوشن کا تعلق بی جے پی سے نہ ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتے اور ان کی ضمانت نہیں ہوتی۔ یاد رہے کہ ایودھیا کے سادھوؤں نے بھی ان کی حمایت کی ہے۔

دریں اثنا 1100 سے زائد انسانی حقوق کے کارکنوں، قانون دانوں، قلمکاروں، مصنفوں اور افسر شاہی کے سابقہ عہدے داروں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے پولیس کارروائی کی مذمت کی اور برج بھوشن شرن سنگھ کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان کے مطابق گزشتہ کئی برس سے عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلوانوں کے احتجاج کو بھی دبانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود پورے ملک سے ہزاروں افراد ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔

پہلوانوں کے عالمی ادارے ’یونائیٹڈ ورلڈ ریسلنگ‘ (یو ڈبلیو ڈبلیو) نے بھی پولیس کارروائی کی مذمت کی اور دھرنے کے بے نتیجہ ہونے پر اظہار افسوس کیا۔ اس نے ایک بیان میں حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے۔

الزام کیا ہے؟

خاتون پہلوانوں نے برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی استحصال اور ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے۔ چھ خاتون پہلوانوں نے جن میں ایک نابالغ بھی شامل ہے، دہلی پولیس میں ان کے خلاف شکایت کی۔

ان کا کہنا ہے کہ برج بھوشن کیمپوں کے دوران خاتون پہلوانوں کو اپنے کمرے میں بلاتے تھے۔ ہم لوگوں نے ایک عرصے تک اسے برداشت کیا مگر اب برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جب پولیس نے برج بھوشن کے خلاف ایف آئی درج نہیں کی تو انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ بالآخر سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد 28 اپریل کو ایف آئی آر درج کی گئی۔ تاہم برج بھوشن کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

الزامات کی تردید

برج بھوشن نے الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔ انہوں نے بدھ کو ایک بار پھر ایک بیان جاری کرکے کہا کہ اگر میرے خلاف ایک بھی الزام ثابت ہو جائے تو میں پھانسی لگا لوں گا۔ اگر ان کے (پہلوانوں) پاس کوئی ثبوت ہے تو عدالت میں پیش کریں میں کوئی بھی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔

قبل ازیں دہلی پولیس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلوانوں کے الزام کے سلسلے میں برج بھوشن شرن کے خلاف ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا جا سکے۔پولیس 15 دن کے اندر عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

اس سے قبل جب پہلوانوں نے برج بھوشن شرن کا نارکو ٹیسٹ کرانے کا مطالبہ کیا تو پہلے تو وہ تیار نہیں ہوئے لیکن پھر وہ اس شرط پر آمادہ ہوئے کہ الزام لگانے والوں کا بھی نارکو ٹیسٹ ہو۔

پہلوانوں کی جانب سے اپنے میڈلز دریائے گنگا میں بہانے کے سوال پر منگل کی شام کو انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا فیصلہ ہے اس میں وہ کیا کہہ سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ برج بھوشن گزشتہ 12 برس سے ریسلنگ فیڈریشن کے صدر تھے۔ اس تنازعے کے بعد ان کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی صدارتی مدت ختم ہو گئی ہے اب نیا انتخاب ہوگا۔ ضابطے کے مطابق تین بار مسلسل صدر رہنے کی وجہ سے وہ اب انتخاب نہیں لڑ سکتے۔


دھرنے کی ٹائم لائن

پہلوانوں نے سب سے پہلے 18 جنوری کو جنتر منتر پر دھرنا شروع کیا تھا۔ وزارتِ کھیل نے اسی روز ریسلنگ فیڈریشن سے 72 گھنٹے کے اندر وضاحت طلب کی تھی۔ 19 جنوری کو کھیل وزیر انوراگ ٹھاکر نے اپنی رہائش گاہ پر پہلوانوں سے ملاقات کی تھی لیکن یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔

پہلوانوں نے 20 جنوری کو انڈین اولمپک ایسو سی ایشن کی صدر پی ٹی اوشا کو ایک خط لکھا۔ ایسو سی ایشن نے اسی روز ورلڈ چیمپئن اور اولمپک میڈلسٹ میری کوم کی سربراہی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل کی۔

ریسلنگ فیڈریشن نے 21 جنوری کو حکومت کو جواب دیتے ہوئے الزامات کی تردید کی۔ دریں اثنا جانچ کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزارت کو پیش کر دی جس میں اس نے کہا کہ اسے کسی کو قصوروار یا بے قصور قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔

پہلوانوں نے رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے 23 اپریل سے دوبارہ جنتر منتر پر دھرنا شروع کر دیا۔

کسانوں کے ایک طاقتور گروپ نے اترپردیش میں مظفر نگر ضلع کے سورم میں جمعرات کو ایک بڑے عوامی جلسے کا اعلان کیا ہے جس میں دھرنے پر بیٹھنے والے پہلوان بھی شرکت اور جلسے سے خطاب کریں گے۔اس موقع پر آگے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG