رسائی کے لنکس

قیام امن اور عالمی اداروں کی ذمہ داریاں


غزہ
غزہ


موجود عشرے کواگر مختلف ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کےپس منظر میں دیکھا جائے تو گذشتہ نو برسوں میں امن کی صورتِ حال خاصی خراب رہی چاہے وہ مشرقِ وسطیٰ ہویا افریقہ، وسطی اور جنوبی ایشا ہو یا پھر مشرقی یورپ ، جنگوں اورتنازعات کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے عالمی اداروں کو اپنی حکمتِ عملی بدلنا ہو گی۔

یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ابی ولیمز کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تو ہمیں تنازعات کو روکنے پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں سیاسی طور پر تنازعات سے بچاؤ کے لیے دلچسپی موجود ہے مگر اس کے لیے ذرائع کو درست طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا۔

دنیا بھر میں ابھرنے والے مسلح تنازعات اور جنگوں کے نتیجے میں تباہی یہ ثابت کرتی ہے کہ خون بہہ جانے کے بعد تنازعات کو حل کرنے کی کوششیں اگر جنگ سے پہلے کی جاتیں تو زیادہ کامیابی ہوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومتوں کو اس سے نمٹنے کے لیے خود کو زیادہ بہتر طریقے سے منظم کرنا ہو گا۔اور ہمیں حکومتوں اور پرایئویٹ سیکٹر کے درمیان اورحکومتوں اور عالمی ادروں کے درمیان پارٹنرشپ کی ضرورت ہے۔

موجودہ دور میں دنیا بھر میں جاری تنازعات کے حوالے سے حساس ترین خطوں میں جزیرہ نما کوریا بھی شامل ہے۔ جہاں شمالی کوریاکے ایٹمی عزائم کو اس کے ہمسایہ ممالک اور امریکہ کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ عراق اور افغان جنگوں کے بعد بالخصوص امریکہ اور با لعموم دیگر ایشائی ممالک کے لیے سب سے بڑا چیلنج شمالی کوریا کواس کے جوہری پروگرام سے دست بردار کرانا ہے۔ اس سلسلے میں چھ ملکی مذاکرات سے کچھ امید پیدا ہوئی تھی مگر اس میں تعطل اور شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے بعد خدشات میں پھر اضافہ ہوگیا ہے۔

ولیمز کہتے ہیں کہ یقیناً جزیرہ نما کوریا دنیا کے ہاٹ سپاٹس میں سے ایک ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں چھ ملکی مذاکرات ایک درست طریقہ ہے۔ یہ مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہو گا۔ اسے مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے۔

لارنس واوچر کا تعلق یونائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے ہے۔ انہوں نے حال ہی میں پر تشدد تنازعات کو حل کرنے کے حوالے سے ایک رپورٹ تحریر کی ہے۔ عراق اور افغانستان کے تنازعات کو حل کرنے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس پہلے کہ بہت سے لوگ مارے جا ئیں ، تنازعات سے بچنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ تنازعات کے پرتشدد ہونے سے پہلے ان کو حل کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

جاری تنازعات کے حل کے لیے ان کا کہنا تھا کہ ثالثی کے عمل بڑھایا جایا چاہیے، اور اس عمل کو متاثر کرنے والوں کے کردارکو محدود کرنا ہو گا۔ ثالثوں کو آگے لانا ہو گا تاکہ مذاکرات سیا سی حل ڈھونڈا جا سکے۔

تنازعات ختم کرنا ممکن بھی ہے،مشکل بھی اور ضروری بھی ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے عالمی اداروں اور حکومتوں کو مل کر نئی سیاسی اور معاشی حکمتِ عملی اپنانی ہو گی۔

XS
SM
MD
LG