رسائی کے لنکس

امریکہ کی تنازعِ کشمیر پر ثالثی کی دوبارہ پیش کش، بھارت کا انکار


صدر ٹرمپ کی کشمیر پر کردار ادا کرنے کی دوبارہ پیشکش
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:37 0:00

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر تنازعِ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صوابدید ہے کہ وہ ثالثی کی پیش کش قبول کریں۔

جمعرات کو واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور عمران خان زبردست افراد ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ دونوں تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں۔

تنازع کشمیر پر ان کی ثالثی کی پیش کش نئی دہلی کی جانب سے مسترد ہونے اور بھارت کا اسے دو طرفہ معاملہ قرار دینے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی مداخلت کرے یا ان کی مدد کی جائے تو وہ ثالثی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں بھارت اور پاکستان سے اس حوالے سے بات کر چکا ہوں۔ اگر وہ چاہیں گے تو اس کے بعد ہی میں مداخلت کروں گا۔

صدر ٹرمپ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنازع طویل عرصے سے چل رہا ہے۔

دوسری جانب بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ امریکی ہم منصب مائیک پومپیو کو واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بات چیت صرف پاکستان کے ساتھ ہوگی اور یہ بات چیت دوطرفہ ہوگی۔

مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی دوسری پیش کش

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات میں انہوں نے پہلی بار بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع کے حل میں کردار ادا کرنے کی پیش کش کی تھی۔

صدر ٹرمپ کا وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات میں کہنا تھا کہ مجھے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کشمیر کے معاملے میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر یہ مسئلہ حل ہو سکے تو میں بخوشی ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔

یاد رہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم اور امریکی صدر میں جون میں جی-20 کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی۔

امریکی صدر کی تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کے بعد بھارت کا شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔

بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی۔ دونوں ممالک دو طرفہ مسائل کا باہمی حل تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں۔

​بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی نے یہ درخواست کبھی نہیں کی۔

راجیہ سبھا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر سے مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق کوئی درخواست نہیں کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تعلقات موجود ہیں جو دو ملکوں کے درمیان ہی رہیں گے۔

بھارت کی جانب سے امریکی صدر کا دعویٰ مسترد کیے جانے کے بعد امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ امریکی صدر واضح کر چکے ہیں، اگر بھارت اور پاکستان دونوں امریکہ سے ثالثی کی درخواست کریں تو امریکہ کشمیر تنازع کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

علاوہ ازیں، صدر ٹرمپ کے بیان پر علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے ٹویٹ کی تھی کہ کشمیر کے عوام مسئلے کا حل جلد چاہتے ہیں۔ جو کوششیں یا مذاکرات پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف لے جائیں گے، وہ ان کی حمایت کریں گے۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ترجمان پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش سے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے میں مدد ملی ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ بھارت پاکستان سے نہ تو باہمی سطح پر بات چیت کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کے تحت بات کرنا چاہتا ہے۔ شاید امریکی صدر کے کہنے پر وہ ایسا کر لے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا راستہ مذاکرات ہے۔ اگر یہ بات بھارت کی سمجھ میں آ جائے تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947 سے کشمیر پر تنازع ہے۔ دونوں ممالک اسے اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔ کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے، جبکہ کچھ حصے پر پاکستان کی عمل داری ہے جس کو آزاد کشمیر کا نام دیا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG