رسائی کے لنکس

بھارتی جیل میں قید کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک نے بھوک ہڑتال ختم کر دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ کشمیری علیحدگی پسند رہنما محمد یاسین ملک نے گزشتہ ماہ دہلی کی تہاڑ جیل میں شروع کی گئی تادمِ مرگ بھوک ہڑتال اس یقین دہانی کے بعد ختم کر دی ہے کہ ان کے خدشات کو اعلیٰ حکام تک پہنچا دیا گیا ہے۔

تہاڑ جیل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو منگل کو فون پر بتایا کہ یاسین ملک نے 22 جولائی کو شروع کی گئی، بھوک ہڑتال ڈائریکٹر جنرل آف جیل خانہ جات سندیپ گوئل کی درخواست پر یہ کہہ کر دو ماہ کے لیے مؤخر کی ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے، تو وہ دوبارہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کریں گے۔

یاسین ملک کی پاکستان میں مقیم اہلیہ مشال حسین ملک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اُن کے شوہر نے بھوک ہڑتال ختم کر دی ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ یہ اعلان کرتے ہوئے خوش ہیں کہ ان کے شوہر اور عظیم کشمیری حریت لیڈر محمد یاسین ملک نے تہاڑ جیل میں 12 روز سے جاری تادمِ مرگ بھوک ہڑتال ختم کر دی ہے۔

انہوں نے اپنی حامیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ یاسین ملک کے لیے انصاف، یاسین ملک کو رہا کرو۔

قوم پرست رہنما اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین 56 سالہ یاسین ملک نے جمعہ 22 جولائی سے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں کشمیر کی خصوصی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات میں پیش ہونے اور استغاثہ کے گواہوں سے جرح کی اجازت دی جائے۔

بھوک ہڑتال کے دوران 27 جولائی کو اُن کی صحت بگڑی گئی تھی۔بعد ازاں انہیں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

جیل حکام اور اسپتال ذرائع نے بتایا تھا کہ بھوک ہڑتال پر رہنے کی وجہ سے یاسین ملک کا بلڈ پریشر کنٹرول میں نہیں رہا تھا اور یہ صورتِ حال اُن کے دل اور جسم کے دوسرے اعضا کے لیے خطرہ پیدا کرسکتی تھی۔

ان کو 29 جولائی کو اسپتال سے ڈسچارج کرکے واپس تہاڑ جیل لایا گیا۔

اسپتال ذرائع کے مطابق یاسین ملک نے ڈاکٹروں کو تحریری طور پر مطلع کیا تھا کہ وہ اپنا علاج نہیں کرانا چاہتے اور تادمِ مرگ بھوک ہڑتال جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

یاسین ملک تین برس سے زائد عرصے سے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت جموں و کشمیر اور نئی دہلی کی عام اور خصوصی عدالتوں میں کئی مقدمات زیرِِ سماعت ہیں، جن میں جے کے ایل ایف کے 25 جنوری 1990 کو سرینگر میں ایک حملے میں بھارتی فضائیہ کے ایک اسکواڈرن لیڈر سمیت چار اہلکاروں کو ہلاک اور تین درجن کو زخمی کرنے جب کہ اس سے قبل دسمبر 1989 میں اُس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کرنے کے مقدمات شامل ہیں۔

ان دونوں مقدمات میں یاسین ملک اور اُن کے ساتھی ملزمان پر پہلے ہی فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے۔

روبیہ سعید کی رہائی کےعوض حکومتِ وقت نے جے کے ایل ایف کے پانچ سرکردہ اراکین کو جیل سے رہا کیا تھا اور یہ واقعہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شروع کی گئی مسلح تحریکِ مزاحمت کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا تھا۔

روبیہ سعید اب بھارت کی ریاست تمل ناڈو میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں۔ وہ گزشتہ ماہ پہلی مرتبہ خصوصی عدالت میں استغاثہ کے گواہ کے طور پر پیش ہوئی تھیں جب کہ یہ مقدمہ گزشتہ تین دہائیوں سے زیرِِ سماعت ہے۔

عدالت نے جب روبیہ سعید سےملزمان کو شناخت کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے صرف یاسین ملک کو شناخت کیا۔

انہیں بعد میں دیگر ملزمان کے اُس زمانے کی تصاویر دکھائی گئیں جب اغوا کا واقعہ پیش آیا تھا۔

یاسین ملک کو رواں برس مئی میں نئی دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے دہشت گروں کی مالی معاونت کے ایک کیس میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان کو تہاڑ جیل کی سیل نمبر سات کے ایک ہائی سیکیورٹی وارڈ میں قید ِ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی نئی دہلی میں قائم خصوصی عدالت نے 19 مئی کو یاسین ملک اور دیگر 18 ملزمان کو 2017 میں دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے حوالے سے درج مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔

خصوصی عدالت نے 25 مئی کو ان پر حکومتِ بھارت کے خلاف بغاوت کے جرم اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے رقوم جمع کرنے پر غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون کے تحت دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

انہیں تین دیگر الزامات میں پانچ پانچ سال جب کہ پانچ مزید الزامات میں 10، 10 سال قید کی سزائیں سنائی تھی۔ تاہم عدالت نے کہا تھا کہ یہ ساری سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی ۔ ان پر مجموعی طور پر11 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔

یاسین ملک کو جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا تو اُن کی بہن عابدہ ملک نے سرینگر میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا تھا کہ تہاڑ جیل کے حکام نے کہا تھا کہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کی وجہ سے یاسین ملک کی صحت غیر معمولی طور پر بگڑ گئی ہے۔ اہلِ خانہ نے اُن سے استدعا کی تھی کہ وہ اپنی صحت کو دیکھتے ہوئے غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال نہ کریں جو انہوں نے مسترد کر دی تھی۔

یاسین ملک نے اپنی وصیت بھی اہلِ خانہ کو دی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے ایک پر امن جدوجہد جاری رکھنے کے مؤقف پر کاربند ہیں۔

یاسین ملک کی سزا پر کشمیری کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:42 0:00

یاسین ملک کی تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال کے بعد جے کے ایل یف کےترجمان محمد رفیق ڈار نے کہا تھا کہ اُن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، اسلام آباد سمیت پاکستان بھر میں اور بیرونِ ملک کئی مقامات پر پارٹی کارکنوں نے علامتی بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ یاسین ملک کو ان کے خلاف درج مقدمے پر ہونے والی کارروائی کے دوران ذاتی طور پر عدالت میں حاضر ہونے کی جازت نہیں دی جا رہی جو قانونی اور جمہوری اقدار کے بالکل منافی عمل ہے۔

بھارت میں مرکز میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جےپی ) کے ایک رہنما رویندر رینہ نے کہا تھاکہ یاسین ملک پر چلائے جانے والے مقدمات میں قانون پر عمل درآمد کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے نہ کہ اس معاملے پر سیاست کی جائے۔

رویندر رینہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مزید کہا تھاکہ یہ معاملاتعدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں اس لیے ان پر سیاست کرنا تو دور کی بات ہے رائے دینا بھی مناسب نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG