رسائی کے لنکس

میڈیا اداروں کے اشتہارات بند کردیے گئے ہیں، صحافی تنظیموں کا الزام


فائل
فائل

پاکستان میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، صحافیوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انکی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

پاکستان میں عام عوام کی آواز ایوانوں تک پہنچا کر انکو انصاف فراہم کرنے والا ادارہ، میڈیا خود انصاف کا منتطر نظر آیا۔ جبری برطرفیاں، تنخواہوں کی عدم ادائیگی، تنخواہوں میں کمی، ویب سائیٹس کی بندش یہ وہ سب مسائل تھے جن سے پاکستان کا میڈیا سال 2018 میں نبردآزما رہے۔

سال 2018 میں پاکستان میں بلاگرز کی گمشدگیوں، اداروں کی بندش، صحافیوں کی بے دخلی او معاشی مشکلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

صحافتی تنظمیوں کا الزام ہے کہ حکومت نے میڈیا اداروں کو کمزور کرنے کیلئے اشتہارات بند کردئیے ہیں، جسکی وجہ سے اداروں کو بند کرنا پڑا اور صحافیوں کو نوکریوں سے نکالنا پڑا۔

اسلام آباد کے ’نیشنل پریس کلب‘ کے جنرل سیکرٹری شکیل انجم کہتے ہیں کہ ’’صحافیوں کے معاشی قتل عام کے ذریعے صحافتی اداروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ میں تین ہزار سے زائد صحافی بیروزگار ہوگئے ہیں۔ ایسے ایسے لوگ نوکریوں سے نکال دیے گئے جو 30 سال سے اس پروفیشن میں تھے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’سونامی کی یہ لہر صحافیوں کی زندگی میں بہت کہرام مچارہی ہے‘‘۔

پاکستان میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، صحافیوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انکی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ حکومتی اداروں کے دباؤ پر اخباروں کی ترسیل میں میں خلل، کیبل نیٹ ورک پر چینل کی نمبرنگ کو تبدیل کرنا سب پرانا ہوچکا اور اب بات من پسند اینکرز کی تعیناتی اور ناپسند اینکرز کی تبدیلی تک جا پہنچی ہے۔ اسکے علاوہ ایسے نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں جن سے سینسر شپ کا تاثر بھی نہیں ملتا۔

25 جولائی، 2018 کو عام انتخابات کے بعد پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی اور جولائی سے دسمبر تک کے عرصے میں ’وقت ٹی وی‘ چینل کو بند ہوا اور اس میں کام کرنے والے صحافیوں اور اسٹبلیشمنٹ کو ناپسند صحافی مطیع اللہ جان کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے، جبکہ ملک میں میڈیا کا سب سے بڑا ادارہ سمجھے جانے والے جنگ گروپ نے مالی بحران کے باعث پشاور، کراچی اور لاہور سے شائع ہونے والے پانچ اخبارات اور دو ایڈیشنز کو بند کر کے تقریباً 500 کے قریب ملازمین کو فارغ کیا۔ ٹی وی چینل، ’ڈان نیوز‘ کو بھی مالی بحران کے باعث فیصل آباد سمیت دو بیوروز کو بند کرنا پڑا۔

ان اداروں کے مطابق، موجودہ حکومت سرکاری اشتہاروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے جیسا کہ ماضی کی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں بشمول طلعت حسین کو بھی ’جیو نیوز‘ کو خیرآباد کہنا پڑا۔ سینئر صحافی، مطیع اللہ جان جنہیں خود بھی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا کہتے ہیں کہ سال 2018 صحافیوں کے لیے بدترین سال ثابت ہوا ہے جس میں ریاستی اداروں نے حکومت کے ساتھ ملکر صحافتی اداروں کو تباہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’’تحریک انصاف کو وہ میڈیا پسند ہے جو سابق حکمرانوں نواز شریف، آصف علی زرداری پر تنقید کرے اور ان کی حکومت کی تعریف کرے؛ اور اسکی واضح مثال پاکستان کے تقریباً تمام ٹی وی چینلز میں وزیر اعظم کی بیٹ کور کرنے والے صحافیوں کو تبدیل کرکے لیگی دور میں تحریک انصاف کی بیٹ کور کرنے والے صحافیوں کو دینا ہے۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ ریاستی ادارے براہ راست صحافتی اداروں میں مداخلت کر رہے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں‘‘۔

الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کرنے والے ادارے پیمرا کا کردار رواں سال صرف حکومتی کارروائیوں پر زور دینے پر رہا۔ لیکن، میڈیا ورکرز یا صحافیوں کو کوئی ریلیف دینے میں یہ ادارہ ناکام رہا۔ نت نئے لائسنس دینے کے لیے 25 دسمبر کو ایک اور اشتہار دیا گیا ہے جس میں نئے لائسنس کے اجرا کے لیے دو لاکھ روپے ناقابل واپسی رقم کے ساتھ درخواستیں دینے کا کہا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک وقت میں جب پرانے چینل بند ہونے کے قریب ہیں، سرکاری اشتہارات بند یا ان کے ریٹس بہت کم کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں نئے چینل اپنی بقا کی جنگ کیسے لڑ سکیں گے۔ اس حوالے سے، مطیع اللہ جان نے کہا کہ نئے چینلز لا کر پرانے اداروں کو بند کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سال رواں میں 5 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور تشدد کے کئی واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ اس سال صحافیوں کو حکومتی اداروں اور مختلف گروہوں کی جانب سے جبر اور دباؤ کا سامنا بھی رہا اور صحافتی تنظمیوں میں اختلافات کا فائدہ بھی انہی طاقتور حلقوں کو ہوا۔ ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے اسد بیگ کہتے ہیں کہ صحافیوں کی سیکیورٹی کے خاطرخواہ انتظامات نہیں ہو سکے، سیلف سینسر شپ نے اس سال پہلے کے مقابلہ میں زور پکڑا ہے۔

میڈیا کے لیے سال 2018 ایک مشکل سال ثابت ہوا جس میں ہزاروں افراد کی بیروزگاری اور اس کے ساتھ ساتھ مثبت رپورٹنگ کا حکم بھی ملا۔ صرف یہی نہیں رواں سال ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو ویب سائیٹ اور پشتو سروس، ’ڈیوا‘ کی ویب سائیٹس بھی بند کردی گئیں، جنہیں کھولنے کے حوالے سے تاحل کچھ نہیں بتایا جا رہا۔

XS
SM
MD
LG