رسائی کے لنکس

یمن میں قحط شدید ہو گیا، 80 فی صد آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا


یمن کے ایک طبی مرکز میں زیر علاج ایک بچہ، 28 اکتوبر 2020
یمن کے ایک طبی مرکز میں زیر علاج ایک بچہ، 28 اکتوبر 2020

ایتھوپیا میں قحط سے سن 1984 اور 85 کے درمیان تقریباً دس لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے تھے، اور عالمی نشریاتی اداروں نے اس سے متعلق بہت سی خبریں نشر کی تھیں جس میں اسے انسانی تاریخ کے ایک بڑے المیے کا نام دیا گیا تھا۔

اس شدید نوعیت کے انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے، جہاں حکومتوں اور دیگر امدادی اداروں نے اہم کردار ادا کیا تھا وہاں راک میوزک سٹارز اور شاہی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی ایمرجنسی امداد کے تحت کئی ملین ڈالر اکٹھے کئے۔

اور اب کئی عشروں کے بعد، خلیجِ عدن میں، وہی المیہ جنم لے رہا ہے، تاہم اس دفعہ اس بحران سے نمٹنے کیلئے ابھی تک وہ چمک دمک رکھنے والے سٹارز اور اثر و نفوذ رکھنے والی شخصیات سامنے نہیں آئیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینتونیو گتریس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ہم انسانی بحران کو ڈرامائی انداز میں بدتر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اور شاید کئی عشرے پہلے، ایتھوپیا کے علاوہ جدید تاریخ میں اس نوعیت کے قحط اور خشک سالی کے خطرے کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔

یمن میں جنم لینے والے اس انسانی بحران کو برسوں میں رونما ہونے والا بدترین بحران قرار دیا جا رہا ہے، جو کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان جنگ کی وجہ سے معاشی بدحالی، ہیضہ، ڈینگی بخار جیسی وبائی امراض پر منتج ہوا ہے۔

یمن میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کے اثرات تو ذرا کم ہیں، لیکن جو اس کا شکار ہوں گے، ان میں ہلاک ہونے کے امکانات دیگر ملکوں کے مقابلے میں دس فصد زیادہ ہیں۔

یمن میں لاکھوں بچوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
یمن میں لاکھوں بچوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق، یمن میں اب تک کووڈ-19 کے 2114 مریض سامنے آئے ہیں، جن میں سے 609 ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کی 80 فیصد آبادی یعنی تقریباً 24 ملین افراد کو انسانی بنیادوں پر امداد کی اشد ضرورت ہے۔ اس آبادی میں کئی لاکھ بچے بھی شامل ہیں جن کی عمریں پانچ برس سے کم ہیں، اور جو غذائی قلت کی وجہ سے بھوک سے ہلاک ہونے کے قریب ہیں۔

ایک آن لائن کانفرنس میں اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں سے متعلق شعبے کے سربراہ مارک لوکاک کا کہنا تھا کہ یہ ایک ہولناک، اذیت ناک اور توہین آمیز موت ہے۔ اور یہ اس لیے بھی توہین آمیز اور اذیت ناک ہے کیونکہ یہ ہماری دنیا میں رونما ہو گی، جس کے پاس درحقیقت ہر ایک کیلئے کافی خوراک موجود ہے۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کی تقریباً 80 فیصد آبادی غربت میں رہ رہی ہے، اور اگر جلد جنگ ختم نہ ہوئی تو یمن سن 2022 تک دنیا کا غریب ترین ملک بن جائے گا۔

حالیہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکہ انصار اللہ کہلانے والے ہوتی باغیوں اور نام نہاد شمالی حکومت کو ایران پر دباؤ ڈالنے کیلئے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینتونیو گتریس کا جمعہ کے روز اس اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ یمن کو کئی دہائیوں کے بعد بدترین قحط کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہاگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو لاکھوں زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG