رسائی کے لنکس

الزبیتھ ہومز دنیا کی کم عمر ترین خود ساختہ ارب پتی خاتون


الزبیتھ ہومز نے 19 سال کی عمر میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں کیمیکل انجنیئرنگ کی ڈگری کو ادھورا چھوڑ کر فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صحت عامہ کی دیکھ بھال کے سیاسی منظر نامے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی پیدا کریں گی۔

اگرٹیکنالوجی کی دنیا کے مایہ ناز تخلیق کاروں کی بات کی جائے تو ان میں ایک چیز مشترک دکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ دنیا کے کامیاب ترین افراد مثلاً بل گیٹس اور مارک زکربرگ اور اسٹیو جابز نے یونیورسٹی کی ڈگری مکمل کئےبغیر ہی تعلیم کو خیر باد کہا دیا تھا لیکن بعد میں یہ لوگ انقلابی ٹیکنالوجی ' مائیکرو سافٹ' ،'فیس بک' اور 'ایپل' کے خالق کہلائے اور دنیا کے گنتی کے ارب پتیوں کی فہرست میں جگہ حاصل کی۔

گو کہ امریکی نوجوان خاتون الزیبتھ ہومزکا نام بھی یونیورسٹی کی ڈگری ادھورا چھوڑ کر بھاگنے والوں میں شامل ہے جنھیں خون کے ٹیسٹ کی انقلابی ٹیکنالوجی کی تخلیق نے دنیا کے کم عمرترین ارب پتیوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے ۔

الزبیتھ نے 19 سال کی عمر میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں کیمیکل انجنیئرنگ کی ڈگری کو ادھورا چھوڑ کر فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صحت عامہ کی دیکھ بھال کے سیاسی منظر نامے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی پیدا کریں گی اور اپنی ٹیوشن فیس کو زیادہ بامقصد اور عظیم مشن کے لیے استعمال کریں گی۔

الزبیتھ ہومز کا کہنا ہے کہ یہ سوئیاں چبھنے کا خوف تھا جس نے انھیں نئی ٹیکنالوجی کی تخلیق کی طرف آمادہ کیا۔ انھوں نے 2003 میں کیلی فورنیا پالو آلٹو میں صحت کی ایک ٹیکنالوجی اور میڈیکل لیبارٹری سروس کمپنی' تیرا نوس' شروع کی۔

لگ بھگ 11 برس تک خاموشی سے کام کرنے کے بعد الزبیتھ ہومز فوربز کی 400 دولت مند ترین افراد کی2014 کی فہرست میں نیا اضافہ ہیں جبکہ انھیں دنیا کی کم عمر ترین ارب پتیوں میں بھی جگہ حاصل ہوئی ہے۔

فوربز میگزین کے مطابق الزبیتھ ہومز کی کمپنی کی مالیت کا اندازاً 9 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ کمپنی کے کل اثاثے میں سے الزبیتھ 50 فیصد پر کنٹرول کرتی ہیں جبکہ اان کی دولت کا تخمینہ 4.5 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ انھیں میگزین کی جانب سے سب سے کم عمر خود ساختہ ارب پتی قرار دیا گیا ہے۔

یو ایس ٹو ڈے سے ایک انٹرویو میں 30 سالہ ہومز جو ابھی غیر شادی شدہ ہیں مذاق میں کہا کہ وہ سنگل نہیں ہیں بلکہ ان کی شادی کمپنی کے ساتھ ہو چکی ہے ۔

میڈیکل ہسٹری میں نئی تاریخ رقم

الزبیتھ ہومز کے مطابق خون کی جانچ کا روایتی طریقہ 1960 کے دور کا ہے جو تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگا اور سست ہے۔ اسی لیے وہ ایک ایسی ٹیکنالوجی تخلیق کرنا چاہتی تھیں جو خون کے ٹیسٹ کو آسان، سستا اور ہر ایک کی رسائی کے قابل کر دے ۔

الزبیتھ نے خون کے ٹیسٹ کے لیے ایک ہارڈوئیر اور ایک سافٹ وئیر تخلیق کیا ہے۔ یہ ایک غیر تکلیف دہ عمل ہے جس میں انگلی کی پور پر پن چبھا کر ایک چھوٹی شیشی میں خون کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جبکہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ایک خون کے قطرے کو 30 مختلف بلڈ ٹیسٹ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسے 'نانوٹینر' کا نام دیا گیا ہے۔

ہومز کہتی ہیں کہ بہت سے لوگوں میں خون ٹیسٹ کےحوالے سے خوف ہوتا ہے۔ روایتی طریقے سے حاصل کیے گئے خون کے نمونوں کو تشخیص کے لیے مختلف لیبارٹریز میں بھیجا جاتا ہے اور نتائج آنے میں بعض اوقات ہفتوں لگ جاتے ہیں اور اس میں غلطی کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی غیر معمولی کارکردگی کے ساتھ وسیع معلومات بھی فراہم کرتی ہے اور ایک ٹیسٹ سے مزید پیروی کے ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں۔ یہ طریقہ روایتی بلڈ ٹیسٹ کے نسخوں سے پچاس سے نوے فیصد سستا ہے۔

خون کے ٹیسٹ کی انقلابی ٹیکنالوجی کی بدولت امریکہ میں مقامی فارمیسی میں خون کا ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے اور چند گھنٹوں کے اندر اندر نتائج دستیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ہومز کی کمپنی کی وال گرینز فارمیسی کے ساتھ شراکت داری ہے اور یہ نظام تمام وال گرینز کی فارمیسیز میں قائم کیا گیا ہے۔

الزبیتھ کا کامیابی کا سفر

الزبیتھ اگرچہ واشنگٹن میں پیدا ہوئیں لیکن ان کا خاندان بعد میں ہیوسٹن منتقل ہو گیا جہاں انھوں نے ہائی اسکول میں اپنے طور پر چائنیز زبان منڈیرین سیکھی اور بعد میں جینوم انسٹیٹیوٹ آف سنگا پور سے انٹرن شپ حاصل کی جہاں خون اور ناک کے پھائے میں سارس وائرس کی تشخیص کےلیے کام کیا جارہا تھا۔

الزبیتھ ہومز نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں کمیسٹری میں داخلہ حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹی سے 3,000 ڈالر کا پریذیڈنٹ اسکالرشپ حاصل کیا لیکن اس رقم کو الزبیتھ نے اپنے کیمیکل انجنیئرنگ کے پروفیسر چاننگ رابرٹسن کے ساتھ لیبارٹری کے ایک تحقیقی پراجیکٹ پر استعمال کیا۔

یونیورسٹی کی تعلیم کے ابتدائی دنوں میں ایک دن الزبیتھ نے پروفیسر رابرٹسن کو بتایا کہ وہ ڈگری مکمل کرنے کی بجائے اپنی کمپنی کھولنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اگرچہ پروفیسر رابرٹس، الزبیتھ کے فیصلے کے اثرات کے حوالے سے فکر مند تھے انھوں نے الزبیتھ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے مقصد کی تکمیل کے پیچھے سب کچھ خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہے۔

جس پر ہومز نے جواب دیا کہ وہ ایک ایسی ٹیکنالوجی تخلیق کرنا چاہتی ہے جس سے پوری انسانیت کو فائدہ حاصل ہو سکے اور اگلے ہی لمحے انھیں ہومز کے ارادے کی پختگی نے یقین دلا دیا تھا کہ الزبیتھ کا مشن ضرور کامیاب ہو گا۔

XS
SM
MD
LG