رسائی کے لنکس

صدر زرداری اور نواز شریف کی تقاریر انتخابی سیاست کا آغاز ہے: تجزیہ کار


صدر زرداری اور نواز شریف کی تقاریر انتخابی سیاست کا آغاز ہے: تجزیہ کار
صدر زرداری اور نواز شریف کی تقاریر انتخابی سیاست کا آغاز ہے: تجزیہ کار

پاکستان کے صدر اور حکمراں پاکستانی پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے منگل دیر گئے تقریر میں سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو، جو کبھی اُن کے اتحادی اور کبھی، بقول بعض تجزیہ کاروں کے، اُن کی ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کے سربراہ تھے، کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، اوربہت سی باتوں کے علاوہ میاں محمد نواز شریف کی سوچ پر اُن کے الفاظ میں تنقید کی۔

صدر زرداری اور نواز شریف کی تقاریر انتخابی سیاست کا آغاز ہے: تجزیہ کار
صدر زرداری اور نواز شریف کی تقاریر انتخابی سیاست کا آغاز ہے: تجزیہ کار

صدر زرداری نے مسلم لیگ ن کے سربرہ کو ’مولوی نواز صاحب‘ کہہ کر مخاطب کیا، اوردونوں پارٹیوں کے مابین سوچ کے فرق کی بات کی۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے چیرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اِس سوال کے جواب میں کہ کیا اب دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت ختم ہوگئی ہے کہا کہ ’وقتی طور پر تو یہی بات درست ہے کہ ایک جو سلسلہ ’لو‘، ’ہیٹ‘ کا، کبھی سختی کبھی نرمی، اُس میں اب کشیدگی بڑھ گئی ہے۔‘

راجہ ظفر الحق کے بقول، صدر پاکستان نے طویل تقریر کی، ذاتی حملے کیے اور وہ باتیں بھی کیں جو اُن کے منسب کے مناسب نہیں بھی تھیں۔اُن کے الفاظ میں: ’ باوجود اِس کے،میاں نواز شریف نے جماعت کے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ اپنے بیان میں تہذیب کے دائرے میں رہیں۔‘

ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ یہ دراصل اب انتخابی سیاست کا آغاز ہوچکا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ 26جون کو کشمیر میں الیکشن ہو رہے ہیں اور اِس کے بعد اگلے سال پاکستان میں انتخابی ماحول بننا شروع ہوگا ۔ اُن کے الفاظ میں: ’اُس سے پہلے، سینیٹ کے الیکشن ہوں گے جِس میں پیپلز پارٹی کو ایک موقع ملے گا ایوانِ بالا میں اپنی اکثریت قائم کرنے کا۔ اصل میں یہ الیکشن کا ماحول بن رہا ہے۔‘

ڈاکٹر توصیف نے کہا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت تقریبا ً ختم ہو گیا ہے، اِس لیے، اُن کے بقول، بیانات کا معیار وہی ہوتا جارہا ہے جیسا کہ 88ء اور 99ء تک تھا۔ ’صدر صاحب نے جو تنقید کی اُس میں ذاتی طور پر نواز شریف کو نشانہ بنایا جِس میں اُنھوں نے اُنھیں لوہار کہا۔‘

ایک اور ممتاز سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر مغیث احمد کا بھی یہی خیال تھا کہ انتخابات کا معاملہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پیشِ نظرہے۔

ڈاکٹر مغیث کے الفاظ میں: ’دونوں پارٹیاں الیکشن کی ہوا کو دیکھ رہی ہیں اور محسوس کر رہی ہیں۔ کسی وقت بھی مڈٹرم الیکشن ہوسکتے ہیں اور اگر نہ بھی ہوں تو ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے جس کے لیے الیکشن کا بازار گرم کرنا ضروری ہے۔‘

اُن کے خیال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان،’جتنی زیادہ کشیدگی ہوگی ‘اتنی ہی عمران خان جیسی’ ابُھرتی ہوئی قوتوں کی‘ میڈیا میں پذیرائی کم ہوگی۔

ڈاکٹر مغیث نے کشمیر میں ہونے والے انتخابات کا ذکر کیا اور کہا کہ ’فوری طور پر یہی بنیاد ی وجہ ہے کہ نواز شریف نے وہاں جا کر پاکستان پیپلز پارٹی کو للکارا ہے اور پھر پیپلز پارٹی اپنےکارکنوں کو متحد کرنا چاہتی ہے اپنے پرانے حریف مسلم لیگ کے خلاف۔۔۔اور یہی دو سیاسی پارٹیاں اہم حریفوں کے طور پر ملک کے منظر پر اُبھریں گی۔‘

اِس سوال کے جواب میں کہ کیا مسلم لیگ ن سے پیپلز پارٹی کی بظاہر اِس دوری کا سبب پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ ق کا اتحاد ہے، ڈاکٹر توصیف نے کہا کہ ’وہ مفاہمت ٹوٹی ہے تو مسلم لیگ ق شامل ہوئی ہے، اور ظاہر ہے جب پی ایم ایل ق سے اشتراک ہوگیا تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ اب نواز شریف کے ساتھ جو مفاہمت تھی وہ ختم ہوگئی۔ ‘

بقول سیاسی تجزیہ کاروں کے، سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی، نہ دوستی نہ دشمنی۔ دیکھئے، آئندہ کون کسی کے ساتھ جاتا ہے اور کس کی مخالفت کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG