کراچی میں لاقانونیت اور بدامنی برقرار

فائل

کراچی کے پرانے شہریوں اورحالات و واقعات کا تجزیہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چند برسوں کے دوران سیاسی رجحانات میں جو تیز رفتار تبدیل آئی ہے وہ بھی اس بات کی غماز ہے کہ اب یہاں سیاست اور جرائم ایک ہی سکے کے دو رُخ معلوم ہوتے ہیں
ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں سیاست اور جرائم بظاہر ایک ہوگئے ہیں جس کے سبب لاقانونیت بڑھ رہی ہے اور ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، فرقہ ورانہ و نسلی فسادات اور سیاسی اختلافات وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں۔

کراچی کےپرانے شہریوں اور حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چند برسوں کے دوران سیاسی رجحانات میں جو تیز رفتار تبدیل آئی ہے وہ بھی اس بات کی غماز ہے کہ اب یہاں سیاست اور جرائم ایک ہی سکے کے دو رخ معلوم ہوتے ہیں۔ اس وقت صورتحال گویا ایسی دکھائی دیتی ہے کہ جرائم پیشہ اور سیاسی عناصر دونوں شہر پر اپنا اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کو ختم کردینے کے در پے ہیں۔ اس سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ایک دوسرے پر حملے اور ان کا سر عام قتل ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(ایچ آر سی پی)کے مطابق رواں برس جنوری سے اگست کے دوران شہر میں 1700افراد مارے گئے۔ ان افراد میں مبینہ طور پر کم ازکم 1345افراد سیاسی بنیادوں پر قتل کئے گئے جبکہ ان میں سے بیشتر کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے تھا۔

یہ اعداد وشمار گزشتہ سال کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، ان میں اضافہ اس جانب بھی نشاند ہی کررہا ہے کہ صورتحال وقت کے ساتھ ساتھ گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتی جارہی ہے۔

حکومت سندھ کے سیکورٹی ایڈوائزر شرف الدین میمن کے مطابق”شہر میں ہونے والی قتل کی وارداتوں کی بہت سی وجوہات ہیں۔ زیادہ تر قتل بھتے سے وصول ہونے والی بھاری بھاری رقموں کو ہتھیانے کے لئے ہورہے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا سبب لسانی، فرقہ وارنہ اور سیاسی اختلافات ہیں جبکہ بعض کیسز ایسے بھی سامنے آئے ہیں جس میں لوگوں نے ذاتی دشمنی میں ایک دوسرے کو قتل کیا ہے۔

فرقہ ورانہ فسادات
محکمہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اگست تک شہر میں 60سے زائد فرقہ وارانہ واقعات ہوئے۔ان واقعات میں شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے لوگ ملوث بتائے جاتے ہیں۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود فرقہ وارانہ قتل کو میڈیا کی سب سے زیادہ توجہ حاصل ہوتی ہے۔

ادھر ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ کراچی میں اجرتی قاتلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سوشیولوجی کے پروفیسر فتح محمد برفت کا اقوام متحدہ کے زیر انتظام انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس نامی خبررساں ادارے کو انٹرویومیں کہنا ہے ”بڑھتی ہوئی قتل کی وارداتوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ انسانی جان بہت سستی ہو گئی ہے۔ٹارگٹ کلر کی فیس پانچ ہزار روپے سے لیکر پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے” کراچی میں سیاسی تقسیم بہت پیچیدہ ہے۔اور مالی فائدے بہت زیادہ ہیں۔سیکڑوں سیاسی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کے ورکرز کی پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کے بعد بھی ہلاکتوں میں تیزی برقرار ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سے شاید ہی کسی کو سزا ملتی ہو۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”’فوجداری مقدمات میں بمشکل پانچ فیصد افراد کو سزا مل پاتی ہے۔ برسوں تک مقدمے چلتے رہتے ہیں جس کے سبب نوے فیصد قیدی ضمانت پر رہتے ہیں۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونی کیشن کے سربراہ اور سیاسی تجزیہ کار توصیف احمد خان کے مطابق زمینوں پر قبضہ کرنے اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد نے سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور سیاسی کلچر کا حصہ بن گئے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی، گینگ وار، منشیات اور زمینوں پر قبضے کا کاروبار یہ سب وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے شہر آج افراتفری اور لاقانونیت کا شکار نظر آتا ہے۔ایسے میں مختلف لسانی گروپوں کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پشت پناہی بھی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔