امریکی اخبارات سے: شیخ حماد کا غزہ کا دورہ

شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اور غزہ کے وزیر اعظم اسماعیل حانیہ

شیخ حماد کے غزّہ کے دورے سے حمّاس اورمحمود عبّاس کی فتح تنظیم کے درمیان اختلا فات کی خلیج وسیع ہو گئی ہے
واشنگٹن پوسٹ

قطر کے امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی نے غزّہ کی پٹّی کا دورہ کیا ہے اور اُسے دو رہائشی کمپلیکس تعمیر کرنے اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں کے لئے چالیس کروڑ ڈالر کے عطیے کا اعلان کیا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق2007 میں اسماعیل حانیہ کی سرکردگی میں غزہ پر حماس کا مکمل قبضہ ہونے کے بعد یہ کسی سربراہ مملکت کا اس علاقے کا پہلا دورہ ہے۔

اخبار کہتا ہےکہ اس دورے سےاندازہ ہوتا ہے کہ حماس کے لئے اس خطّے میں حالات کس قدر بدل گئے ہیں۔حسنی مبارک کے دور صدارت میں مصرسعودی عرب کا اتّحادی تھا جس نے غزّہ کی سرحد کم و بیش مستقل بند کر رکھی تھی۔لیکن اخوان المسلمین کے محمد مرسی کےمصر کا صدر بننے کے بعدیہ سرحد کھول دی گئی ۔ قطرکے فرماںروا کاغزہ کا یہ دورہ قطر کی اُس غیر معمولی خارجہ پالیسی کا بھی عکّاس ہے جس کے تحت حمّاس جیسی تنظیموں کو مالی امداد دی جاتی ہے۔ حالانکہ ان تنظیموں کو امریکہ نےدہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ اس کے باوجود قطر نے واشنگٹن کےساتھ مضبوط تعلّقات قائم کر رکھے ہیں۔

شیخ حماد 17 برس سےقطر کے حکمران ہیں جس دوران انہوں نے ملک کے بے انداز مالی وسائل کی بدولت علاقے میں زبردست اثرو نفوذ حاصل کر لیا ہے ۔ خاص طور پر پچھلے دو سال کے دوران لیبیا اور یمن کے انقلابات میں اور شام کی حکومت کو الگ تھلگ اورتنہا کرنے میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا ہے۔ البتہ آٹھ ماہ قبل قطر کی میزبانی میں حمّاس کی قیادت اور مغربی کنارے کے صدر محمود عبّاس کے مابین مصالحت کا جوسمجھوتہ ہوا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں قومی انتخابات کی جو توقع کی جارہی تھی ، وُہ پُوری نہیں ہو سکی ہے اور شیخ حماد کے غزّہ کے دورے سے حمّاس اورمحمود عبّاس کی فتح تنظیم کے درمیان اختلا فات کی خلیج وسیع ہو گئی ہے۔ اور فتح نے قطرکے فرماں روا سے مطالبہ کیا ہے۔کہ وہ مغربی کنارے کا بھی دورہ کریں۔غزّہ کی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ایک اعزازی ڈگری قبول کرتے ہوئے شیخ حماد نےفلسطینی لیڈروں کو اختلافات دور کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ اس کی وجہ سے نہ تو امن مذاکرات ہو رہے ہیں اورنہ ہی اُن کے پاس مزاحمت یا جد و جہد آزادی کی کوئی حکمت عملی ہے۔

روئیٹرزنیوز ایجنسی

مکہء معظمہ میں حج کی تقریبات کا آغاز خانہء کعبہ سے لگ بھگ 30 لاکھ زائرین کی منیٰ کے عظیم کیمپ کی طرف روانگی سے ہوا ہے۔جو لوگ نئی نئی بنائی ہوئی ٹرین سروس کا استفادہ نہ کر سکے ۔انہوں نے یہ سفر شہر کی فراہم کردہ 18 ہزار بسوں میں کیا ، یا ٹرکوں کی چھتوں پر بیٹھ کر۔

رائیٹرزخبر ایجنسی کہتی ہے کہ اس سال حج کی تقریبات مشرق وسطیٰ میں اُس پُھوٹ کے تناظر میں ہو رہی ہیں، جس کی وجہ شام کی خانہ جنگی ہے ۔ شیعہ ایران اور سعودی عرب اور ترکی جیسے سُنّی ملک اس خانہ جنگی کے مخالف دھڑوں کی حمائت کر رہے ہیں۔ اور دونوں ریاض اور تہران نے حج کے موقع پر سیاسی وجوہات کی بناء پر کسی گڑ بڑ کے امکان کو ردّ کر دیا ہے ۔ جب کہ سعودی حکّام نے انتباہ کیا ہےکہ کسی قسم کی گڑبڑ برداشت نہیں کی جائے گی۔ ماضی میں حج کی کئی تقریبات میں بھگدڑ اور آتش زدگی کے کئی واقعات ہوئے ہیں ۔ جن میں سینکڑوں زائرین ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن سعودی حکام نے بنیادی ڈھانچے پر کافی سرمایہ لگایا ہے۔ اور2006 کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا ہے۔

لاس اینجلس ٹائمز

صدارتی انتخابات کے سال میں امریکہ کے اخبارات میں یہ رواج ہے کہ وہ بتاتے ہیں کہ ان کامن پسند امید وار کون ہے۔ اور اس کا اعلان باقاعدہ ادارئے میں کیا جاتاہے۔ کیلی فورنیا کے کثیر الاشاعت اخبار لاس اینجلس ٹائمز کا قرّعہء فال براک اوباما پر پڑا ہے۔ جن کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ انہوں نے اپنی مستقل مزاج قیادت کی بدولت ملک کی اچھی خدمت کی ہے۔ اخبار کہتاہےکہ اوباما کو بد ترین قسم کا اقتصادی بُحران اور دو جنگیں ترکے میں ملی تھیں ۔ انہوں نے عراق کی بے مقصد جنگ سے نجات حاصل کی اور اقتصادی کسادباری پرمالی ترغیبات کے اقدامات کی بدولت قابو پالیا۔ امریکہ کی موٹر کار صنعت کو بچایا اور صحت عامّہ کی نگہداشت جیسا اہم اصلاحی قانون نافذ کیا۔

اخبار کہتا ہے کہ چھ نومبر کو امریکی ووٹر کو دو امیدواروں کے پروگراموں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔اوباما کا پروگرام 1990 کی دہائی کے فارمولےکی یاد دلاتا ہے، جب حکومت نے ٹیکس بڑھائےا ورخسارے پر قابو پانے کے لئے اخراجات گھٹائے۔اس کے برعکس ان کے حریف مٹ رامنی ٹیکسوں میں مزید کٹوتی کر کے اوردفاعی اخراجات کو بڑھا کر ملک کے بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل کو نظر انداز کردیں گے۔ اسی لئے اخبار کی نظر میں اوباما کو دوبارہ منتخب کرنا چاہئے۔