آب وہوا کی تبدیلی سے نبرد آزما پاکستان کی معاونت کے لیےبین الاقوامی کانفرنس

ستمبر 2022 کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کےصحبت پور شہر میں ایک شخص سیلابی پانی میں گھرے اپنے سامان کے قریب بیٹھا ہے۔

آب وہوا کی تبدیلی سے نبرد آزما پاکستان کے لئے، اقوام متحد اورحکومت پاکستان کی مشترکہ میزبانی میں 9 جنوری 2023 کو جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔

اس کانفرنس میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان کے لوگوں اور حکومت کی مدد کے لئے پبلک، پرائیویٹ سیکٹرز اور سول سوسائٹی کےکے راہنما اکٹھے ہو رہے ہیں ۔

اس کانفرنس کے دو مقاصد ہیں ۔ بحالی اور تعمیر نو کے لئے مختلف شعبوں کے تعاون پر مبنی ایک حکمت عملی پیش کرنا جسے 4 آر ایف کا نام دیا گیا ہے اور پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور امطابقت پیدا کرنے کے لئے بین الاقوامی مدد اور پائدار شراکت داریوں کی تشکیل کی کوشش ۔

SEE ALSO: موسمیاتی تبدیلی: 2022 میں پاکستان سمیت دنیا بھر کو 268 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا

یہ کانفرنس نو جنوری کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک ، اسلام آباد کے وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے سے رات دس بجے تک اور نیو یارک کے وقت کے مطابق صبح تین بجے سے دوپہر بارہ بجے تک منعقد ہو گی ۔

کانفرنس کی کاروائی دو حصوں میں ہو گی۔ پہلے حصے میں اعلی سطح کی افتتاحی تقاریر ہوں گی جس میں 4 آر ایف دستاویزکو سرکاری طور پر پیش کیا جائے گا اورشراکت داروں کی مدد سے متعلق اعلانات ہوں گے ۔

دوسرے حصے میں پاکستان میں آب و ہوا سے نمٹنے اور اس سے مطابقت کےلئے ٹھوس طریقوں کو تلاش کیا جائے گا۔ اس کانفرنس کی کاروائی کااقوام متحدہ کی چھ زبانوں میں ترجمہ کیاجائے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان: سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کی تازہ ترین صورتحال

پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کئی دہائیوں میں ملک میں آنے والے بد ترین قدرتی سانحے تھے ۔ ان سیلابوں میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا ، لگ بھگ 15000 لوگ ہلاک یا زخمی اور 80 لاکھ بے گھر ہوئے ۔

0 2 لاکھ سے زیادہ گھر ، 13000 کلومیٹرز پر مشتمل شاہراہیں ۔ 439 پل اور چالیس لاکھ ایکڑ سے زیادہ زرعی رقبہ یا تو تباہ ہوا یا اسے نقصان پہنچا ۔ ان سیلابوں کے براہ راست اثرات کے نتیجے میں لگ بھگ 90 لاکھ سے زیادہ لوگ غربت کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔

پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لئے کوئٹہ کے قریب ایک امدادی کیمپ : فوٹو اے پی 16 ستمبر 2022

اقوام متحدہ کی مدد اور عطیہ دہندگان اور شراکت داروں کی فیاضی اور پاکستانی عوام کے جرائتمندانہ رد عمل سے حکومت پاکستان نے آب وہوا کے اس عظیم سانحے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے ۔

اس نے بین الاقوامی اداروں کی مد د سے 2 اعشاریہ 2 ملین گھروں کی مدد کے لئے 245 ملین امریکی ڈالر نقد فراہم کئے ہیں ، بے گھر اور بے سروسامان متاثرین کو ہزاروں خیمے ، خوراک ، پانی اور ادویات تقسیم کی ہیں ۔

لیکن اب اسے بحالی اور تعمیر نو کے بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے ۔

Your browser doesn’t support HTML5

سندھ: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایچ آئی وی کی ادویات تک رسائی

اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک گروپ ، ایشیائی ترقیاتی بنک اور یورپی یونین کی مدد سے پاکستان نے قدرتی آفت کے بعد کی ضروریات کا ایک تخمینہ، پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز ایسسمنٹ ، یا پی ڈی این اے تیار کیا ہے جس میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 14 اعشاریہ 9 ارب امریکی ڈالر ، اقتصادی نقصانات کا 15 اعشاریہ 2 ارب ڈالر سے زیادہ اور بحالی کی ضروریات پر 16 اعشاریہ تین ارب ڈالر کا تخمینہ پیش کیا گیا ہے ۔

پی ڈی این اے میں بنیادی ترجیحات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں معاش اور زراعت کی بحالی ، نجی رہائش گاہوں کی تعمیر نو اور سڑکوں ، پلوں ، اسکولوں اور ہسپتالوں سمیت عوامی انفرا اسٹرکچر کی مرمت اور بحالی شامل ہیں ۔

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ایک بے گھر ہونےوالی خاتون اپنے بچوں کے ساتھ : فوٹو رائٹرز 15ستمبر 2022

PDNA کے ابتدائی تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ سیلاب کے براہ راست نتیجے کے طور پر، قومی غربت کی شرح میں 3.7 سے 4.0 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہو سکتا ہے، جو 8.4 سے 9.1 ملین مزید لوگوں کو غربت میں دھکیل سکتا ہے۔

پی ڈی این اے کے ابتدائی تجزیے سے ظاہر ہوا ہے کہ ملک کے 25 غریب ترین اضلاع میں سے 19 متاثر ہوئے اور 3,100 کلومیٹر ریلوے ٹریک تباہ ہوئے یا انہیں نقصان پہنچا۔

4.4 ملین ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی یا تباہ ہوئی، اور 10 لاکھ سے زیادہ مویشی ضائع ہوئے۔

26,000 سے زیادہ اسکولوں کو نقصان پہنچا یا تباہ کیا گیا، جس سے 3.5 ملین سے زیادہ طلباء متاثر ہوئے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سندھ: سیلاب متاثرہ علاقوں میں کئی ماہ بعد تعلیمی سرگرمیوں کا جزوی آغاز

نوسال سے انیس برس کی عمر کی ، تقریبأ چھے لاکھ چالیس ہزار لڑکیوں کو جنسی استحصال، صنفی بنیاد پر تشدد اور بچپن کی شادیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے۔

تقریباً 660,000 حاملہ خواتین کو زچگی کی خدمات تک رسائی کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے، جب کہ تقریباً 40 لاکھ بچے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم ہیں۔

ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ زرعی پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں اضافے سے غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد دوگنی ہو کر،ا 7 ملین سے بڑھ کر 14.6 ملین ہو جائے گی۔