’بھارت میں جمہوریت کو جتنے چیلنجز اب درپیش ہیں، پہلے کبھی نہیں تھے‘

بھارت میں ستّرویں یوم آزادی کی تقریب: فائل فوٹو

بھارت کو آزاد ہوئے اس مہینے یعنی اگست کی 15 تاریخ کو 75 سال ہوجائیں گے ۔ 1947 میں آزادی ملنے کے بعد بھارت کی معیشت نے بتدریج ترقی کے مراحل طے کیے اور اس وقت اس کا شمار دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے۔

سواارب سے زیادہ آبادی رکھنے والے اس ملک میں جہاں صنعتی ترقی ہو رہی ہے وہاں اسے بے روزگاری اور بھوک جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ملک میں اکثراحتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی پانچ اگست کو ملک کی حزب مخالف کانگریس جماعت نے بے روزگاری اور کھانے پینے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ ہرچند کہ اس وقت بھارت میں حزب مخالف خاصی کمزور پڑ چکی اورحکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت مرکزاورکئی صوبوں میں بہت مضبوط ہے اورعوامی سطح پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی مقبولیت کافی بلند ہے۔تاہم حالیہ مظاہروں نے اس وقت تیزی سے ایک نیا رخ اختیار کیا جب راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس کے اہم قانون سازپارلیمنٹ میں داخل ہوئےاور پولیس کے ساتھ ان کی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ بعد میں راہول گاندھی نے ان تصاویر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت میں جمہوریت محض یاد ماضی بن چکی ہے۔

گاندھی کے بیان کو بڑے پیمانے پربحران سے دوچار اپوزیشن پارٹی کی جانب سے اپنی اہمیت جتانے کی ایک موہوم کوشش کے طور پر دیکھا گیا جسےحکومت نے مسترد کر دیا۔ بہر حال بڑھتے ہوئے حکومت مخالف جذبات کے درمیان یہ ایک صدائے باز گشت کہی جا سکتی ہے –

بھارتی وزیر اعظم مودی لال قلعے سے یوم آزادی کے موقعے پر خطاب کر رہے ہیں (فائل فوٹو)

کیا تقریباً 1.4 بلین افراد کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پسپائی اختیارکررہی ہے اوراس کی جمہوری بنیادیں کمزور پڑرہی ہیں؟

ماہرین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے اختیارات پرنظرثانی کے باعث عدلیہ پرعوامی اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پریس اورآزادی اظہار پر کھلے عام حملے ہو رہے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کو ہندو قوم پرستوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا ہے۔ بعض اوقات اشتعال انگیز پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پرپرامن احتجاج کوانٹرنیٹ کی بندش اورکارکنوں کوجیلوں میں ڈال کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

بکررپرائز جیتنے والی ناول نگار اور کارکن اروندھتی رائے نے کہا ہے کہ "اکثرسابقہ نو آبادیات نے دیرپا جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ بھارت نے ایسا کرنے میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے اوراب 75 سال بعد اسے منظم طریقے سے اورافسوس ناک پرتشدد طریقوں سے ختم کیے جانے کا مشاہدہ کرنا تکلیف دہ ہے۔"

مودی کے وزراء کا کہنا ہے کہ بھارت کے جمہوری اصول مضبوط ہیں اور یہاں جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اپریل میں کہا تھا کہ " اگر آج دنیا میں یہ احساس ہے کہ جمہوریت کا کسی نہ کسی شکل میں، مستقبل روشن ہے، تو اس کی بڑی وجہ بھارت ہے، ایک وقت تھا جب، دنیا کے اس حصے میں، یہ واحد جمہوری ملک تھا۔"

پندرہ اگست 1947 کو پنڈت جواہرلعل نہرو بھارت کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ اس کے بعد سے اس ملک میں جمہوریت پروان چڑھتی رہی۔ 1975 میں ایک تھوڑا سا وقفہ آیا جب کانگریس پارٹی نے ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کیا۔ مگر جلد ہی جمہوریت کی طرف واپسی ہو گئی۔ بھارت اپنے جمہوری عقائد کے ساتھ سختی کے ساتھ منسلک رہا۔ متواترہونے والے آزادانہ انتخابات، ایک آزاد عدلیہ جس نے انتظامیہ کا مقابلہ کیا، ایک فروغ پذیرمیڈیا، مضبوط اپوزیشن اوراقتدار کی پرامن منتقلی کا عمل جاری رہا۔

لیکن ماہرین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک اپنی جمہوری ڈگر سے بتدریج ہٹ رہا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ 2014 میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد پسپائی میں تیزی آئی ہے۔وہ ان کی حکومت پر جمہوری آزادیوں کو مجروح کرنے کے لیے بے لگام سیاسی طاقت کے استعمال کا الزام لگاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خود ہندو قوم پرستی کا شکار ہو چکی ہے۔

سویڈن میں صحت مند جمہوریتوں کی درجہ بندی کے تحقیقی مرکز وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اورسیاسیات کے ماہر اسٹافن آئی لِنڈبرگ نے کہا کہ "ایسا لگتا ہے کہ زوال کئی بنیادی اہم جمہوری اقدار میں آیا ہے، جیسا کہ آزادی اظہار اورمعلومات کے متبادل ذرائع، اور اجتماع کی آزادی۔"

مودی کی جماعت اس کی تردید کرتی ہے۔ پارٹی کے ایک ترجمان، شہزاد پونا والا نے کہا کہ مودی کے دورحکومت میں بھارت ایک "پھلتی پھولتی ہوئی جمہوریت بن چکا ہے اوراس حکومت نے "جمہوریت کو بحال اور توانا رکھا ہے۔"

نئی دہلی میں لوگ بھارت کا 74 واں یوم آزادی منانے کے لئے انڈیا گیٹ کے قریب ایک سڑک پر اکٹھے ہوئے : فائل فوٹو

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس نے گزشتہ سال کہا تھاکہ جمہوری تنزلی کا سامنا کرنے والے ممالک کی تعداد "اتنی زیادہ کبھی نہیں رہی" جتنی کہ گزشتہ دہائی میں ہے۔اس ادارے نے اب اس فہرست میں امریکہ کو بھارت اور برازیل کے ساتھ شامل کیا۔

امریکہ میں قائم غیر منافع بخش فریڈم ہاؤس نے اس سال کے شروع میں، بھارت کو مکمل آزاد جمہوریت کے درجے سےگھٹا کر "جزوی طور پر آزاد جمہوریت " کی فہرست میں شامل کر دیا ۔ وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ نے بھارت کو روسی طرز کی "انتخابی مطلق العنانی" کے درجے میں رکھا۔ اور اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ذریعے شائع کردہ ڈیموکریسی انڈیکس نے بھارت کو "ناقص جمہوریت" قرار دیا۔

بھارت کی وزارت خارجہ نے ان درجہ بندیوں کو "غلط" اور "مسخ شدہ" قرار دیا ہے۔ بہت سے بھارتی رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس طرح کی رپورٹیں "اندرونی معاملات" میں دخل اندازی ہیں، بھارت کی پارلیمنٹ نے ان پربحث کی بھی اجازت نہیں دی۔

عالمی سطح پر بھارت جمہوریت کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ دسمبر میں امریکہ کی طرف سے منعقدہ افتتاحی سمٹ برائے جمہوریت کے دوران، مودی نے زور دے کر کہا کہ "جمہوری اقداربھارت کی "مہذب اخلاقی اقدار" کا لازمی جزے۔

تاہم، اندرون ملک، ان کی حکومت اسی جذبے کو آگے بڑھانے میں پس و پیش کرتی نظر آتی ہے، آزاد ادارے اکثر بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال کی زد میں آتے ہیں۔

بعض مبصرین بھارت کی سپریم کورٹ میں طویل زیر التوا مقدمات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مودی کی حکومت کے اہم فیصلوں کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان میں متنازعہ شہریت کا قانون، بھارتی کنٹرول کے کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کرنے کا قانون اورحکومت کا جاسوسی کرنے والے کمپیوٹر کے انتہائی حسّاس نظام کا استعمال جیسے معاملات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں اقلیتوں کے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہندوقومیت کا اظہار ملک کو یک جہتی کے بجائے انتشار کی طرف لے جا سکتا ہے۔

وزیر آعظم مودی (فائل فوٹو)

پریس کی آزادی کا تحفظ بھی بھارت کی جمہوری اقدار کا ایک کڑا امتحان ہے۔

صحافی اور "دی ایمرجنسی: اے پرسنل ہسٹری" کی مصنفہ، صحافی کومی کپور نے لکھا ہے کہ "اگر آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ میڈیا مسٹر مودی کے دور حکومت میں یقینی طور پر انتشار کا شکار ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "ایمرجنسی میں جو کچھ ہوا وہ سامنے تھا اوراس میں کوئی دکھاوا نہیں تھا۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ زیادہ درجہ بدرجہ تنزلی اور ہولناک ہے۔‘‘

پھر بھی، کپور جیسے خوش امید لوگوں کا خیال ہے کہ "اگر ہندوستان اپنے جمہوری اداروں کو مضبوط کرے" اورعدلیہ کی آزادی کو سر بلند رکھے" تو سب کچھ ختم نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگرعدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی تو مجھے ڈر ہے کہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔

چند ماہرین کا اصرار ہے کہ بھارت کی جمہوریت کو شدید دھچکے لگ چکے ہیں اس لیے جمہوریت کا روشن مستقبل ماند بھی پڑسکتا ہے۔

بھارت یقینی طور پر ایک بڑا ملک ہے اور اپنے اندر تنوع کے ساتھ لچک بھی رکھتا ہے ۔ اس لیے بہت سے حلقے اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ ملک کی جمہوری اقدارکا مستقبل بدستور روشن ہے۔

(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا)