رسائی کے لنکس

بھارت میں پارلیمانی انتخابات سے قبل بی جے پی کو دھچکا، بہار میں حکومت سے باہر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی آبادی کے لحاظ سے تیسری بڑی ریاست بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) کے رہنما اور وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے بی جے پی سے اتحاد ختم کر دیا ہے اور ریاست میں حزبَ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس کے ساتھ ایک بار پھر نئی مخلوط حکومت قائم کر لی ہے۔

ان کے اس فیصلے کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔

نتیش کمار نے منگل کو پٹنہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کے تمام ارکان اسمبلی نے بی جے پی سے اتحاد ختم کرنے کی سفارش کی تھی، لہٰذا ہم نے یہ اتحاد توڑ دیا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے گورنر پھاگو چوہان کو اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ دو گھنٹے کے اندر ہی وہ پھر گورنر سے ملے اور انہیں 164 ارکانِ اسمبلی کی حمایت کا خط پیش کیا اور آر جے ڈی، کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی)، سی پی آئی ایم ایل، ہندوستانی عوام مورچہ اور ایک آزاد رکن اسمبلی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کیا۔

حکومت سازی کے لیے 122 ارکان کی حمایت درکار تھی۔نتیش کمار نے بدھ کو آٹھویں بار ریاست کے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھایا ہے۔

نتیش کمار کے ساتھ آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو نے نائب وزیرِ اعلیٰ کا حلف اٹھایا ہے۔ اس سے قبل جب 2015 میں دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی تو اس وقت بھی نتیش کمار وزیر اعلیٰ اور تیجسوی یادو نائب وزیرِ اعلیٰ تھے۔

نتیش کمار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کی پارٹی کو توڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے کم از کم چار ارکان اسمبلی کی آڈیو ریکارڈنگ ان کے پاس ہے، جنہیں کروڑوں روپے کا لالچ دیا گیا تھا۔

بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی اور نتیش کمار پر بہار کے عوام کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا ہے۔

بی جے پی کی ریاستی شاخ کے صدر سنجے جیسوال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہار کے عوام نتیش کمار کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔

سینئر بی جے پی رہنما سشیل مودی نے ایک نیوز کانفرنس میں الزام لگایا کہ نتیش کمار نائب صدر کے عہدے کے عوض بہار کی حکومت بی جے پی کو سونپنے کے لیے تیار تھے البتہ بی جے پی انہیں نائب صدر بنانا نہیں چاہتی تھی۔ اسی لیے انھوں نے اتحاد توڑ دیا۔

نتیش کمار کی جانب سے اس الزام پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

یاد رہے کہ 2020 کا اسمبلی انتخاب بی جے پی اور جے ڈی یو نے مل کر لڑا تھا۔ بی جے پی کو 72 اور جے ڈی یو کو 43 نشستیں ملی تھیں البتہ بی جے پی نے کم نشستیں لانے کے باوجود نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔ آر جے ڈی 75 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔

اسی درمیان بی جے پی کی ریاستی شاخ نے پٹنہ میں نتیش کمار کے اس فیصلے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا ہے۔

سینئر رہنماؤں اور کارکنوں نے بی جے پی کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور نتیش کمار کے خلاف نعرے لگائے۔ بی جے پی 12 اور 13 اگست کو پوری ریاست میں احتجاج کرے گی۔

بہار ایسی ریاست ہے جو اتر پردیش (یو پی)، مہاراشٹرا اور مغربی بنگال کے بعد سب سے زیادہ 40 ارکان پارلیمان چن کر دہلی بھیجتی ہے۔ مبصرین کے مطابق وہاں سے بی جے پی کی حکومت کے خاتمے سے پارلیمنٹ میں اس کے حامی ارکان کی تعداد پر اثر پڑے گا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سیاسی کشیدگی کے لیے بی جے پی بھی ذمہ دار ہے، جس نے مہاراشٹرا میں شیو سینا کو توڑ کر اس کے باغی رہنما ایکناتھ شنڈے کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، وہی اسے بہار میں دیکھنا پڑا ہے۔

سینئر تجزیہ کار معصوم مراد آبادی کے مطابق شیو سینا کو تقسیم کرنے کی وجہ سے مرکز میں حکمران محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کی حلیف جماعتیں خوف زدہ ہو گئی ہیں۔ بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ بہار میں بھی یہی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہی تھی۔

بہت سے مبصرین دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت جمہوریت مخالف ہے۔ وہ ایسا جمہوری نظام چاہتی ہے جس میں اپوزیشن کی کوئی آواز نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ایک ایک کرکے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کرکے حزبِ اختلاف کو خوف زدہ کر رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے قریب آتے آتے سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی جب کہ دیگر ریاستوں میں بھی اس قسم کی سرگرمیاں ہوں گی۔

معصوم مرادآبادی اور سینئر تجزیہ کار ایس کے پانڈے اس خیال کے حامی ہیں کہ بہار میں حکومت سے بی جے پی کی بے دخلی اس کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ اس کا اثر آنے والے پارلیمانی انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے۔

تاہم ایس کے پانڈے کہتے ہیں کہ بی جے پی اس قسم کے چیلنجز پر قابو پانا جانتی ہے۔ وہ سیاسی حریفوں کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کرکے چپ کراتی رہی ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ اب بہار میں بھی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور دیگر ایجنسیوں کو سرگرم کر دیا جائے۔

حکومت مرکزی ایجنسیوں کے استعمال کے الزام کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ایجنسیاں آزاد ہیں اور ای ڈی اپنے طور پر مالی بدعنوانیوں کے خلاف الزامات کی جانچ کرتا ہے۔

سیاسی حلقوں میں ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ نتیش کمار آئندہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر حزبِ اختلاف کے ایک متفقہ لیڈر کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں اور نریندر مودی کے حریف بن سکتے ہیں۔

معصوم مرادآبادی کے خیال میں نتیش کمار بی جے پی اتحاد سے الگ ہو کر اپوزیشن کے ایک اہم رہنما کے طور پر ابھرے ہیں لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ وہ نریندر مودی کے سیاسی حریف ہوں گے اور ان کے مقابلے میں اپوزیشن کے متفقہ لیڈر بنیں گے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نتیش کمار اب ریاستی سیاست سے ہٹ کر قومی سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمانی انتخابات سے قبل بہار کی قیادت تیجسوی یادو کو سونپ کر قومی سیاست میں سرگرم ہو سکتے ہیں کیوں کہ بہرحال وہ بھی وزیرِ اعظم بننے کا خواب رکھتے ہیں۔

جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کسی بھی عہدے کے لیے وہ دعوے داری نہیں ہیں لیکن جو 2014 میں آئے وہ 2024 میں رہ پائیں گے یا نہیں؟ ان کا اشارہ مودی کی طرف تھا۔ یاد رہے کہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر بھی انہیں وزیرِ اعظم کے امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

معصوم مرادآبادی کے خیال میں حزبِ اختلاف میں کئی سیاست دان ہیں جو وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں، جن میں مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی اور تیلنگانہ کے وزیرِ اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ بھی شامل ہیں لہٰذا اس بارے میں حتمی طور پرکچھ نہیں کہا جا سکتا۔

انہوں نے دیگر مبصرین کی اس رائے سے اتفاق کیا کہ نتیش کمار کے بی جے پی سے الگ ہو جانے کی وجہ سے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ان کے مطابق وہ نتیش کمار کے سہارے اسی طرح پارلیمانی انتخابات میں بھی چھوٹی اور پسماندہ برادریوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں تھی جس طرح اس نے 2019 میں حاصل کیے تھے مگر اب اس کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG