عدالت میں تذلیل کے لیے نہیں بیٹھے: چیف جسٹس

فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس، میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ہم تذلیل ہونے کے لیے عدالت میں نہیں بیٹھے، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ توہین عدالت کرکے معافی مانگ لی جائے۔

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اور سینئر اینکر پرسن عامر لیاقت کا معافی نامہ مسترد کر دیا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عامر لیاقت کے وکیل نے اپنے موکل کی جانب سے غیر مشروط معافی نامہ جمع کرایا، سماعت کے دوران عامر لیاقت کے ٹیلی ویژن پروگرام کے مختلف کلپس چلائے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تذلیل کرانے کے لیے عدالت میں نہیں بیٹھے، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ توہین عدالت کرکےمعافی مانگ لی جائے۔ اگر توہین عدالت ثابت ہوئی تو عامر لیاقت نااہل ہوجائیں گے۔ عامر لیاقت نے نااہلی سے بچنے کے لیے معافی مانگی۔ عامر لیاقت نے تحریری جواب میں کہیں پر غلطی تسلیم نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جواب میں معافی نامے والا پیرا گراف قانون کے مطابق نہیں، فی الحال معافی قبول نہیں کر رہے۔ آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کریں گے، کیس کی مزید سماعت 27 ستمبر کو ہوگی۔

اس کیس کے حوالے سے عامر لیاقت نے سماجی رابطے کی سائیٹ ٹوئٹر پر اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’عدالت نے میری غیر مشروط معافی مسترد کر دی اور فردِ جرم عائد کرنے کا حکم دیا۔ میں کل بھی عدالتوں کا احترام کرتا تھا، آج بھی کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ فردِ جُرم عائد ہونے پر عدالت کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جواب بھی دوں گا اور سماعتوں پر حاضر ہوں گا‘‘۔

عامر لیاقت کے خلاف اینکر شاہ زیب خانزادہ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں عامر لیاقت کے خلاف کہا گیا ہے کہ انہوں نے عدالتی احکامات کے باوجود ان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کیے۔ اس کیس میں عامر لیاقت کو توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہونا بھی پڑسکتا ہے۔

،