پاکستان مسلم لیگ( ن) کے رہنما اور سابق وزیرِ ا عظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کو توسیع دیتے وقت قانون میں ترمیم کرنا غلطی تھی۔ فوج بطور ادارہ اس میں خود ترمیم کرائے گی۔
نجی نشریاتی ادارے 'ڈان نیوز' کو دیے گئے انٹریو میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن ایک غیر معمولی عمل ہے البتہ گزشتہ حکومت میں قانون سازی کرکے اسے معمول کا عمل نہیں بنانا چاہیے تھا۔
شاہد خاقان عباسی کا مزید کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹیشن دیتے وقت اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بغیر مشورہ کیے ساڑھے تین ماہ پہلے مدتِ ملازمت میں توسیع کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کے بقول عمران خان نے اگست 2019 ہی میں جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے دی تھی جب کہ ایکسٹینشن کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور اس کا فیصلہ نومبر 2019 میں ہونا چاہیے تھا۔
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی ان کو نومبر 2019 میں دی گئی توسیع کو ایک بہت بڑی غلطی قرار دے چکے ہیں۔
عمران خان نے ایک انٹرویو میں اپنی وزارتِ عظمیٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو جنرل باجوہ کہتے تھے وہ اس پر بھروسہ کر لیتے تھے، ان کے ساتھ گزرے ساڑھے تین برس میں پہلی بار معلوم ہوا کہ بھروسہ کرنا کتنی بڑی کمزوری ہے۔
سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے انٹرویو میں مزید کہا کہ عمران خان نے جلد بازی کی۔ ایکسٹینشن کے معاملے میں بڑی غلطی ہوئی تھی۔ فوج کے سربراہ نے بھی اسے قبول کر لیا تھا البتہ بعد میں سپریم کورٹ نے کہا کہ اس معاملے کو پارلیمان کے ذریعے حل کیا جائے۔
SEE ALSO: صدر عارف علوی کی پہلی بار جنرل باجوہ پر تنقید، تردیدی بیان بھی جاریجنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کو بدلنا نہ فوج کے مفاد میں تھا اور نہ ہی ملک کا مفاد تھا۔
ان کے بقول قانون میں ترمیم کرکے غلطی کی گئی، جس سے ایکسٹیشن جو کہ ایک غیر معمولی عمل ہے، اسے معمول کا عمل بنا دیا گیا جب کہ اس کو قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ وہ غلط اقدام تھا اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے بقول فوج کا ادارہ اس میں خود ترمیم کرائے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
ان کی مدتِ ملازمت نومبر 2019 میں مکمل ہونی تھی البتہ ملک میں تحریکِ انصاف کی نئی حکومت آ چکی تھی، جس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ قبل اگست 2019 میں ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی تھی۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی البتہ بعد ازاں درخواست گزار نے وہ درخواست واپس لے لی تھی لیکن اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس معاملے کو اہم قرار دے کر اس کی سماعت کی اور نومبر 2019 حکومت کو مسلح افواج کے سربراہوں کی ایکسٹینشن کے حوالے سے چھ ماہ میں باقاعدہ قانون سازی کا حکم دیا۔ ایسے میں جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی عارضی ایکسٹینشن دی گئی۔
حکومت نے قانون سازی کے لیے جنوری 2020 میں بل پہلے قومی اسمبلی میں پیش کیے جو کہ کثرت رائے سے با آسانی منظور ہو گئے۔ اس کے اگلے ہی دن سینیٹ میں بھی ایکسٹینشن کے حوالے سے قانون سازی کے بل منظور ہو گئے اور قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2022 تک تین سال کی ایکسٹینشن مل گئی۔
اس سے قبل سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کو بھی پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایکسٹینشن دی گئی تھی جس پر بعد ازاں پیپلز پارٹی پر تنقیدبھی کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ 20 برس میں پاکستان میں چار آرمی چیف گزرے ہیں جن میں جنرل پرویز مشرف کو اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے اکتوبر 1998 میں آرمی چیف مقرر کیا تھا البتہ اس کے اگلے برس اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے حکومت کا تخہ الٹ دیا تھا۔ وہ پہلے ملک کے چیف ایگزیکٹو بنے بعد ازاں انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ ان کو قواعد کے مطابق تین برس کی مدتِ ملازمت مکمل کرکے آرمی چیف کے عہدے سے اکتوبر 2001 میں سبکدوش ہونا تھا البتہ وہ نومبر 2007 تک اس عہدے پر رہے۔
SEE ALSO: آرمی چیف کی تعریف سنی ہے، نئی اسٹیبلشمنٹ آنے کے بعد تبدیلی نظر نہیں آئی: عمران خاننومبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد کی۔ ان کو نومبر 2010 میں ریٹائر ہونا تھا۔ 2010 میں ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ ملک کے صدر آصف علی زرداری تھے جب کہ وزارتِ عظمیٗ سید یوسف رضا گیلانی کے پاس تھی۔ پیپلز پارٹی نے اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں تین برس کی توسیع دی اور وہ 2013 میں ریٹائر ہوئے۔
جون 2013 میں میاں نواز شریف پاکستان کے تیسری بار وزیرِ اعظم بنے، انہوں نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے چند ماہ بعد نومبر 2013 میں جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف مقرر کیا۔ ان کو نومبر 2016 میں ریٹائر ہونا تھا، البتہ ان کی ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ قبل خبریں سامنے آنے لگی تھیں کہ ان کو بھی ایکسٹینشن دی جا سکتی ہے۔ تاہم فوج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ جنرل راحیل شریف مدتِ ملازمت میں توسیع کے خواہاں نہیں ہیں۔
یوں دو دہائیوں میں جنرل راحیل شریف واحد آرمی چیف رہے جو ملازمت کی مقررہ مدت کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2016 میں نیا آرمی چیف مقرر کیا جن کو نومبر 2019 میں تحریکِ انصاف کی حکومت میں وزیرِ اعظم عمران خان نے ایکسٹینشن دی تھی۔