افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد میں گیارہ فی صد کمی

افغان نیشنل آرمی۔ فائل فوٹو

امریکہ تقریباً دو عشروں سے افغان سیکیورٹی فورسز تشکیل دینے کی کوششیں کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے ملک کا دفاع اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکیں

افغانستان کے لیے امریکی حکومت کے نگران ادارے کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کے دوران افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کی تعداد میں تقریباً 11 فی صد کمی واقع ہوئی۔

پیر کے روز کابل میں ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں میں کم ازکم 26 افراد ہلاک ہوئے جن میں 9 صحافی بھی شامل تھے جو پہلے دھماکے کے بعد وہاں رپورٹنگ کرنے کے لیے پہنچے تھے۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ دوسرے دھماکے کا ہدف صحافی ہی تھے۔

ان دو خودکش دھماکوں سے ایک ہفتہ قبل 60 افراد اس وقت مارے گئے تھے جب وہ شہر کے ووٹر رجسٹریشن سینٹر کے باہر ایک قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

یہ واقعات حکومت کی جانب سے سیکیورٹی سخت کرنے کے مسلسل وعدوں کے باوجود عدم تحفظ کی بڑھتی ہوئی فضا کو اجاگر کرتے ہیں۔

حملوں میں تیزی سے اضافہ اس چیز کی خوفناک یاددہانی ہے کہ طالبان اور عسکری گروپ داعش دونوں ہی افغانستان میں تباہی پھیلانے کی ابھر تی قوتوں کے طور پر نمایاں ہو رہے ہیں باوجود یکہ 16 سالہ پرانی افغان جنگ میں صدر ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کے تحت فضائی حملوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو کے انسپکٹر جنرل یعنی ایس آئی جی اے آر کی منگل کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کی تعداد، جن میں فوج، ایئر فورس اور پولیس شامل ہے، جنوری میں دو لاکھ 96 ہزار 400 سو تھی۔ جو ایک سال پہلے 2017 جنوری کی تعداد کے مقابلے میں 10 اعشاریہ 6 فی صد کم ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی فورسز کے منظور شدہ اہل کار تین لاکھ 34 ہزار ہیں۔

امریکہ تقریباً دو عشروں سے افغان سیکیورٹی فورسز تشکیل دینے کی کوششیں کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے ملک کا دفاع اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکیں۔

ایس آئی جی اے آر کے سربراہ جان سوپکو کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کی تشکیل امریکہ اور ہمارے بین الاقوامی اتحادیوں کی اولین ترجيح ہے۔ اس لیے ان کی تعداد میں کمی ہونا ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔