|
ترکیہ کے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن کی غیر معمولی کامیابی کو صدر رجب طیب ایردوان کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس بات امکان پیدا ہو گیا ہے کہ طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے صدر رجب طیب ایردوان اور ان کی جماعت چار برس بعد ہونے والے صدارتی الیکشن سے قبل اپنی تقسیم کرنے والی پالیسیوں پر پسپائی اختیار کریں گے۔
اتوار کو بلدیاتی اتنخابات میں ایردوان اور ان کی اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کو شکست ہوئی تھی۔
بلدیاتی الیکشن میں بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی اپوزیشن کی مرکزی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نہ صرف استنبول اور دارالحکومت انقرہ میں بڑے مارجن سے کامیاب ہوئی ہے بلکہ اس نے جنوبی ترکیہ میں آدیامان اور کیلیس جیسے قدامت پرست صوبوں میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
اس کے علاوہ سی ایچ پی ان متعدد نشستوں پر دوبارہ کامیاب ہوئی ہے جو اس نے 2019 کے بلدیاتی الیکشن میں حاصل کی تھیں۔
اب کیا ہو گا؟
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج ایردوان کے لیے واضح انتباہ ہے۔ متوقع طور پر اب وہ اپنی جارحانہ طرزِ سیاست سے کچھ قدم پیچھے ہٹیں گے اور حالات کو ’معمول پر لانے‘ کا راستہ اختیار کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور اب ایردوان نیٹو اتحادی مثلاً امریکہ اور یونان سے تعلقات میں بہتری لائیں گے اور ترکیہ کے اندر بھی اپنی ماضی کی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے۔
SEE ALSO: ترکیہ: ایردوان کی جماعت کو بلدیاتی الیکشن میں شکست کیوں ہوئی؟
اتوار کو گزشتہ دو دہائیوں سے ترکیہ پر حکومت کرنے والے طیب ایردوان نے بلدیاتی الیکشن میں اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے ہمیں اپنا ’پیغام‘ دے دیا ہے اور اے کے پی اب اس کا تجزیہ اور خود احتسابی کرے گی۔
استنبول کی اسیک یونیورسٹی سے میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر صدا دیمیر الپ کا کہنا ہے کہ موجودہ نتائج گزشتہ برس صدارتی اتنخاب میں اپوزیشن کو ملنے والے ووٹوں کے عکاس ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس خراب کارکردگی کے باوجود سی ایچ پی نے بڑے شہروں میں پاپولر ووٹ حاصل کیا تھا۔
دیمیرالپ کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج خبردار کرنے والے ہیں اور توقع ہے کہ ایردوان حالات معمول پر لانے کی کوشش کریں گے یا پھر ان کی جماعت (اے کے پی) کو مستقبل میں مزید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسلامی اور خاندانی اقدار کا کیا ہوگا؟
ترکیہ کو بہت قریب سے دیکھنے والے کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ایردوان اپنی قدامت پسندانہ پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائیں گے۔ البتہ وہ پہلے کے مقابلے میں اپنا لہجہ کچھ نرم کر سکتے ہیں۔
نیویارک میں قائم ایک کنسلٹنگ فرم ’تینیو‘ کے شریک صدر ولفینگو پکولی کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ ایردوان ان آئینی تبدیلیوں کے لیے اپنی کوششوں کو کچھ عرصے کے لیے روک دیں جنھیں وہ ترکیہ کی ’خاندانی اقدار‘ کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔
SEE ALSO: ترکیہ کے بلدیاتی انتخابات میں ایردوان کی جماعت کو تاریخی شکست
مثلاً وہ اسلامی طریقے کے مطابق خواتین کو سر ڈھانپنے کا حق دینا چاہتے ہیں۔ لیکن ان آئینی تبدیلیوں کو ایل جی بی ٹی کیو پلس کمیونٹی کے حقوق پر حملے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
پکولی کا کہنا ہے کہ ایردوان کبھی اس بڑی شکست کے بعد اپنے مخالفین کے لیے اپنے لہجے میں نرمی نہیں لائیں گے اور نہ ہی سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں گے۔
اتوار کو آنے والے نتائج کے مطابق اپوزیشن جماعت سی ایچ پی ترکیہ کے 85 میں سے 35 صوبوں میں کامیاب ہوئی ہے اور اس نے ملک کے پانچ سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایردوان کی اے کے پی 24 صوبوں میں کامیاب ہوئی ہے۔
انقرہ میں جرمن مارشل فنڈ کے ڈائریکٹر ازگر انلوہسارجکلی کا کہنا ہے کہ ایردوان کے لیے یہ نتائج غیر معمولی ہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی 'انادولو' کے مطابق بلدیاتی الیکشن میں ٹرن آؤٹ 78 فی صد رہا جب کہ گزشتہ برس صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کی شرح 87 فی صد تھی۔ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ ترک اے کے پی کے حامیوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہے۔
ازگر انلو کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی ایردوان کو اس بری طرح ہارتے نہیں دیکھا۔ سی ایچ پی پہلی مرتبہ ووٹوں کی دوڑ میں اے کے پی سی آگے نکل گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ترکیہ تبدیلی کے لیے تیار ہے۔‘
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ؛ کیا صدر ایردوان اسرائیل سے متعلق ’محتاط‘ ہیں؟
معیشت کا کیا ہو گا؟
استنبول کو ایردوان کا سب سے مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اسی شہر میں پیدا ہوئے یہیں سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ لیکن یہاں بھی اپوزیشن نے 2019 میں حاصل ہونے والی اپنی کامیابی کا تسلسل برقرار رکھا۔ جنوب مشرق میں کرد نواز جماعتیں اکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی نے اپنے خلاف برسوں سے جاری ریاستی کارروائیوں کے باوجود دس صوبوں میں کامیابی حاصل کی۔
ایردوان کی اتحادی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی یا ایم ایچ پی آٹھ صوبوں میں کامیاب رہی۔ دی نیو ویلفیئر پارٹی یا وائی آر پی نظریاتی طور پر اے کے پی کے قریب ہے لیکن انتخابات میں اس کی مقابل بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے بھی دو صوبوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ووٹس کے اعتبار سے یہ تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اور اس نے 6.2 فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
وہ مبصرین جن کا خیال تھا کہ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن کی کاکردگی مایوس کن رہے گی۔ ان کے لیے نتائج حیران کُن ثابت ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس صدارتی الیکشن میں ناکامی کے بعد سی ایچ پی کی قیادت میں تبدیلی کی گئی۔ 75 سالہ کمال کلیچدار اولو کی جگہ 49 سالہ ازگر اوزل کو پارٹی کی قیادت دی گئی جس سے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ پارٹی نئے جذبے کے ساتھ میدان میں اتری اور اس کے امیدواروں کو بھی کامیابی ملی۔
لوگ کیا کہتے ہیں؟
استنبول کی سڑکوں پر لوگوں کا ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن کے حامی جہاں اپنی کامیابی پر خوش ہیں وہیں بہت سے لوگوں کو آئندہ کے معاشی حالات کی وجہ سے اپنی مشکلات میں اضافے کی فکر لاحق ہے۔
SEE ALSO: 29 اکتوبر 1923؛ جب مصطفیٰ کمال اتا ترک نے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کیااپوزیشن کے حامی عیسی پوپلاتا نے کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک اچھے دن میں آنکھ کھولی ہے۔ الیکشن کے نتائج ملک کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔
اے کے پی کے خلاف ووٹ دینے والی 54 سالہ حجابی پیکدمیر کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں ان کے گھر کا کرایہ چھ گنا بڑھ چکا ہے۔
وہیں 40 سالہ فاطمہ خانیدار نے نتائج پر پریشانی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے طیب ایردوان کی ان کوششون کے لیے ’ناشکرگزاری‘ کا اظہار ہوتا ہے جو انہوں نے کرونا وبا اور زلزلے کی تباہ کاریوں سے نکلنے کے لیے کی تھیں۔
اے کے پی کے ایک اور حامی حسامتین ایزر کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے صدر اب بھی اپنے منصب پر ہیں۔
اس تحریر میں شامل معلومات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔