اوکاڑہ میں نوجوان کا قتل، 'عبدالسلام کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ احمدی تھے'

مقتول عبدالسلام کے قتل کے الزام میں مقامی مدرسے کے طالبِ علم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو تیز دھار آلے کے وار کرکے قتل کر دیا گیا ہے ۔ مقتول کے ورثا نے الزام لگایا ہے کہ عبدالسلام کو مذہبی منافرت کی بنا پر قتل کیا گیا۔

تھانہ چوچک پولیس نے مقامی دینی مدرسے سے ایک روز قبل فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان علی رضا کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے ۔

ایف آئی آر میں مدرسے کے انچارج کو بھی اعانت جرم کا ملزم قرار دیتے ہوئے کہا گیا گیا ہے کہ مہتمم محمد امین کی جنونی اور اشتعال انگیز تقاریر سے متاثر ہو کر ملزم نے احمدی نوجوان کو قتل کیا۔

واقعہ کس طرح پیش آیا؟

پولیس کے مطابق منگل کی شام ساڑھے پانچ بجے زمیندار عبدالسلام اپنے کھیتوں سے واپس آ رہے تھے کہ ایک گلی میں مخالف سمت سے آنے والے نوجوان علی رضا نے ان پر چھرے سے وار کرنا شروع کر دیے۔

حملہ اتنا شدید تھا کہ عبدالسلام کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور وہ موقع پر ہلاک ہو گیا اور حملہ آور فرار ہو گیا۔

مقتول ضلع اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد کے گاؤں ایل پلاٹ فوجیوں والا کے رہائشی تھے جہاں کی آبادی لگ بھگ آٹھ ہزار ہے۔

عبدالسلام کے ماموں ظفر اقبال کی مدعیت میں درج کرائے گئے مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ علی رضا عرف ملازم حسین مذہبی جنونی آدمی ہے جو مقامی مدرسے سے ایک روز قبل فارغ ہوا تھا۔

ظفر اقبال کے بقول 12 ربیع الاول کو نکالے گئے جلوس کے دوران بھی احمدی برادری کے گھروں کے سامنے اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی جس کی وجہ سے احمدی کمیونٹی میں خوف و ہراس بڑھ گیا تھا۔

جماعتِ احمدیہ کا مؤقف

جماعتِ احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا ہے کہ عبدالسلام کو مذہبی انتہا پسند شخص نے عقیدے کے اختلاف پر قتل کیا ہے ۔

اُن کا کہنا تھا کہ مقتول عبدالسلام کی عمر 35 سال تھی ۔ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

مقتول کے پسماندگان میں والدین، اہلیہ، دو بیٹے اور ایک کم سن بیٹی شامل ہیں۔

احمدی کمیونٹی کا یہ مؤقف رہا ہے کہ حکومت اُنہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق اور تحفظ حاصل ہیں۔ لہذٰا مذہب کے نام پر کسی کی جان لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔