مصر کا انقلاب، توقعات اور حقیقت

مصر

’عرب ملکوں میں انقلاب لانا ایک نہیں کئی نسلوں کا کام ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہاں پر تبدیلی آہستہ آہستہ آ رہی ہے‘: لیبیا کے لیے سابق برطانوی سفیر رچرڈ ڈالٹن
مصر میں آنے والےانقلاب کو دو سال ہونے کو ہیں۔ ایسے میں ماہرین مصر میں آنے والے اس انقلاب کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں جِس سے بہت سے لوگوں کو مشرق ِ وسطیٰ کے حالات بدلنے کی امید تھی۔

مصر میں آنے والا انقلاب لاکھوں پُرجوش مصریوں کے لیے امید کی ایک نوید تھا۔ لیکن، انقلاب کی دوسری سالگرہ کے موقع پر مصر کا روشن خیال و سیکولر طبقہ اس بات پر احتجاج کر رہا ہے کہ مصر کی نئی اسلام پسند حکومت اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔

اس تضاد کی وجہ سے خطے میں مصر، لیبیا، تیونس اور دیگر ممالک میں اٹھنے والی شورش اور بغاوت کے نتیجے میں آنے والے انقلاب کی خوشی مایوسی اور تضاد میں بدل گئی۔ ماہرین اسے ایک علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

سٹیسی گوٹکوسکی لندن کے کنگز کالج میں مشرق ِ وسطیٰ کے امور کی ماہر ہیں۔ان کے الفاظ میں، ’’انقلاب آپ کو سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جیسا کہ دیوار ِ برلن ڈھائے جانے والا ڈرامائی منظر۔ لیکن مشرق ِ وسطیٰ میں ایسا نہیں ہوا۔ وہاں پر ابھی تک کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ عرب خطے میں حقیقی معنوں میں انقلاب آنے میں بہت وقت لگے گا۔‘‘

تفصیلی رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

عرب سپرنگ



سٹیسی گوٹکوسکی کا کہنا ہے کہ ان حالات میں عوام میں بڑھتی مایوسی کی وجہ سمجھ آتی ہے۔ حتیٰ کہ ان ملکوں میں بھی جہاں تختہ الٹ دیا گیا، کوئی واضح تبدیلی نہیں آسکی۔

شمالی افریقی ممالک میں جس قسم کی ڈرامائی تبدیلیاں آئیں وہ خطے کے دوسرے ملکوں تک نہیں پھیلیں، مثال کے طور پر شام، جہاں سرگرم کارکنوں کو انقلاب کا نعرہ بلند کرنے پر تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یا پھر خلیج فارس ریاستیں جہاں زیادہ تر بادشاہت کا نظام وضع ہے اورعوام کو تبدیلی کے نام پر ان کے حقوق چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں آرام آرام سے اور ناپ تول کر دیئے جاتے ہیں۔

سٹیسی گوٹکوسکی کہتی ہیں کہ ، ’’ یہ کہنا کہ عرب ممالک میں کوئی ایک شورش یا بغاوت ہے، غلط ہوگا۔ اس وقت عرب ممالک میں تین جگہ پر بغاوت سر اٹھا رہی ہے۔

اس بڑے خطے میں مختلف حکومتوں اور بے شمار مقامی روایتوں اور ثقافت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہاں پر بغاوتیں پھوٹ رہی ہے۔

لیبیا کے لیے سابق برطانوی سفیر رچرڈ ڈالٹن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’عرب ملکوں میں انقلاب لانا ایک نہیں کئی نسلوں کا کام ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ وہاں پر تبدیلی آہستہ آہستہ آ رہی ہے۔ ‘‘

ماہرین کہتے ہیں یقیناٍ ً عرب خطے میں آنے والی تبدیلی کا عمل ناہموار اور آہستہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے ملکوں میں تبدیلی کی سمت غلط ہے۔ لوگوں کو بہت سے ایسے مسائل کا سامنا ہے جو انہیں بادشاہی نظام کی وجہ سے ملے۔ جیسا کہ مالی مسائل جن کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی زندگی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ان ممالک میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بھی خدشات اپنی جگہ موجود ہیں۔

گو عرب خطے میں ابھرنے والے نئی قیادت اور لیڈر شپ اسرائیل اور مغرب کے لیے سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اُن سے پہلے عرب ممالک میں بادشاہوں کی نافذ کردہ مغرب نواز پالیسیوں میں کوئی اچانک اور ڈرامائی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ رچرڈ ڈالٹن کے الفاظ میں، ’’جو بھی حکومت اقتدار میں ہو۔ حکومتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ اور اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ حکومت اور عوام دونوں کو ہی یکساں طور پر زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کا موقع ملے۔ ‘‘

ماہرین کہتے ہیں کہ صدارتی محل ہو یا پھرعام گلی کوچے، دو سال بعد بھی خطہ ِ عرب کے اس ملک میں آنے والے انقلاب میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔