بیرونی ایما پر بلوچستان کے حالات کو خراب کیا جاتا ہے: صوبائی وزیر داخلہ

  • قمر عباس جعفری

فائل

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے کہا ہے کہ ان کے صوبے کو بہ یک وقت کرونا اور دہشت گردی سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں شراکت اقتدار کے معاہدے کے بعد حالات ٹھیک ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے۔

بقول ان کے، ''یہ بعض قوتوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لئے، نہ صرف افغانستان میں حالات کو بگاڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور کی جائیں گی، بلکہ پاکستان کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے''۔

انھوں نے یہ بات منگل کے روز وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

صوبہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے دو واقعات میں سات سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ یہ حملے مچھ اور کیچ کے علاقوں میں ہوئے اور ان واقعات نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس ضمن میں سوال کا جواب دیتے ہوئے، میر ضیا لانگو نے کہا کہ ان کے صوبے کو بہ یک وقت کرونا اور دہشت گردی سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ بلوچستان میں ایسی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، بقول ان کے، ''بھارت میں کی جاتی ہے''۔ تاہم، بھارت سے باوجود کوشش کے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن، اس حوالے سے بھارت کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اس کا اس قسم کے واقعات سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے۔

ثبوت سے متعلق ان کے دعوے کے بارے میں وزیر سے پوچھا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ پھر وہ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیوں نہیں کرتے اور ایسے حقائق میڈیا کے سامنے کیوں نہیں لاتے؟ انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کا رویہ کلبھوشن والے کیس میں سامنے آ چکا ہے۔ اور، بقول ان کے، ''رہ گئی بات میڈیا کے سامنے لانے کی، تو اس بارے میں ملکی سلامتی کے تقاضوں کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ہے''۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ جن ملکوں کے ساتھ انٹیلیجینس شیئرنگ ہوتی ہے ان کے سامنے سارے ثبوت لائے جا چکے ہیں۔ اور انہوں نے کہا کہ وہ دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ جیسے وہ کرونا کے خلاف اکھٹے ہو کر کارروائی کر رہی ہے اسی طرح اس دہشت گردی کے خلاف بھی سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر اقدام کرے۔

ممتاز دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبے سے بعض طاقتوں کو مسئلہ ہے اور وہ اس منصوبے کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسی لئے ان علاقوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔ لیکن، اس کے باوجود انہیں پناہ دینے والوں کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا۔ دوسری جانب، بقول ان کے، ایران میں چاہ بہار منصوبے کے سبب اس علاقے میں بھارت کی موجودگی بڑھ گئی ہے؛ اور اب پاکستان کو اس سلسلے میں ایرانی حکومت سے بات چیت کرنی ہوگی اور اسے ایران کا تعاون درکار ہو گا۔

جنرل امجد شعیب نے کہا کہ پاکستان نے بھی جندللہ کے معاملے میں ایران کے ساتھ تعاون کیا تھا اور ایران کا رویہ بظاہر مثبت بھی ہے۔ اس لئے، ان کے تعاون سے وہاں حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے، آئی ایس آئی کے ایک سابقہ عہدیدار بریگیڈیئر حامد سعید کا اس سلسلے میں نقطہ نظر کچھ مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی کشمیر میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی طرف سے، بقول ان کے، ''یہ توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے''۔

انہوں نے کہا کہ ''بلوچستان میں دہشت گردوں کے 'سلیپر سیل' موجود ہیں جن کو فارن فنڈنگ ملتی ہے، اور بہ وقت ضرورت سرگرم ہو جاتے ہیں''۔