صدارتی انتخابات، کلنٹن کو کلیدی ریاستوں میں سبقت حاصل

فائل

امریکی صدارتی انتخابی سیاست میں تمام ریاستیں مساوی درجہ نہیں رکھتیں۔ آٹھ نومبر سے پہلے کے آخری دِنوں کے دوران، ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ہیلری کلنٹن اور ری پبلیکن ڈونالڈ ٹرمپ کا تمام تر دھیان نام نہاد ’’کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں‘‘ یا ’’بدلتی ہمدردیوں والی ریاستوں‘‘ پر لگا ہوا ہے، جو ہی امریکہ کے آئندہ صدر کا فیصلہ کریں گی۔

ہر چار برس بعد، 50 ریاستوں میں سے عموماً دو تہائی ایک یا دوسری جماعت کی حمایت کرتی ہیں، باقی بچنے والی ایک درجن یا کم و بیش ریاستیں وہ ہوا کرتی ہیں جو خاص توجہ طلب ہوتی ہیں۔

الیکٹورل کالج‘ کے ووٹ کے نظام کےذریعے، امریکہ کی تمام ریاستیں اپنے طے ووٹوں کی بنیاد پر صدر کا انتخاب ہوتا ہے، جہاں معروف رائے دہی کے بل بوتے پر ہر ریاست میں حاصل ہونے والے ووٹوں کے بعد، معاملہ ہر ریاست کے ’الیکٹورل ووٹ‘ کا ہوتا ہے۔ صرف مئین اور نبراسکا ایسی دو ریاستیں ہیں جنھیں معمولی نوعیت کا استثنیٰ حاصل ہے، جہاں چند ووٹ ’کانگریشنل ڈسٹریکٹ‘ کے ہوتے ہیں۔

صدارتی انتخابی مہم کے آخری دِنوں کے دوران، کلنٹن اور ٹرمپ بار بار اِنہی چند ریاستوں میں ڈیرے ڈالتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کے عہدے کے امیدوار اکثر اوہائیوِ، فلوریڈا اور نارتھ کیرولینا کے علاوہ چند دیگر ریاستوں کے چکر کاٹ رہے ہیں؛ جن کا انتخابی دِن کے حوالے سے ایک اہم کردار ہوگا۔

سرخ، نیلی اور وفاداریاں بدلنے کے امکان والی ریاستیں

چند سالوں کے دوران سیاسی طور پر امریکہ شدید طور پر منقسم ہے، جب کہ صدارتی انتخابات میں متعدد ریاستیں ایک یا دوسری پارٹی کی جانب جھکاؤ دکھا رہی ہیں۔

اسٹیفن وائین ’جارج ٹاؤن یونیورسٹی‘ کے تجزیہ کار ہیں۔ اُن کے بقول، ’’متعدد ریاستوں میں ایک پارٹی کو بڑی برتری حاصل ہے اور اِن ریاستوں میں اب صدارتی عہدے کے انتخاب پر زیادہ رقوم خرچ کرنا بیکار ہے‘‘۔

جارج میسن یونیورسٹی کے ایک ماہر، جیرمی مائر کے مطابق، اِس کے بعد خودساختہ ’’کانٹے کے مقابلے والی ریاستیں‘‘ یا ’’وفاداریاں بدلنے کے امکان والی ریاستیں‘‘ رہ جاتی ہیں، جہاں ٹرمپ اور کلنٹن اپنا زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’اس جدید دور کی صدارتی مہم کے دوران، آپ دراصل محض تقریباً 12 ریاستوں میں مہم چلاتے ہیں۔ ہر چار سال میں یہ فہرست بدل سکتی ہے، حالانکہ پچھلے تین انتخابی مرحلوں کے دوران، صورت حال کافی مستحکم دکھائی دیتی ہے‘‘۔

سخت مقابلے والی ریاستیں، جن کی جانب زیادہ توجہ دیا جاتا ہے، اُن میں فلوریڈا، اوہائیو اور کولوراڈو کی بڑی ریاستیں شامل ہیں؛ ساتھ ہی، چھوٹی ریاستیں ہیں، مثلاً نارتھ کیرولینا، ورجینیا، آئیوا، نیواڈا اور نیو ہیپشائر۔

مائر نے مزید بتایا کہ اِن ریاستوں میں ووٹروں پر سیاسی اشتہارات کی بھرمار کی جاتی ہے۔ اُن کے بقول، ’’اس لیے، پوری انتخابی مہم کے دوران پارٹیاں اِنہی 12 ریاستوں پر توجہ مرتکز رکھتی ہیں۔ عام سال میں، دونوں پارٹیاں بڑی سطح کی جوڑ توڑ کرتی نظر آتی ہیں۔ اُن کے پاس ٹیلی ویژن کے بڑے بڑے اشتہارات ہوتے ہیں، جب کہ انہی ریاستوں میں فون کالز اور دورے کرکے، اثر کا ہر حربہ آزمایا جاتا ہے‘‘۔

اِس سال، کلنٹن کی انتخابی مہم تاریخ سازی کی نہج پر ہے، جب وہ ایریزونا، جورجیا، یہاں تک کہ ٹیکساس کی تاریخی طور پر ری پبلیکن حلقوں والی ریاستوں میں اپنا جھنڈا گاڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ عام جائزہ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ خاص طور پر ایریزونا میں لگتا ہے کہ کلنٹن کافی سخت دھاک جما چکی ہیں، جب کہ جارجیا اور ٹیکساس میں اثر دکھانے کی پوزیشن میں لگتی ہیں۔ ایریزونا نے سنہ 1996میں ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا تھا، جب کہ آخری بار سنہ 1976 میں ٹیکساس نے ڈیموکریٹ امیدوار، جِمی کارٹر کا ساتھ دیا تھا۔