سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ساحلی علاقوں میں موسم کی صورتِ حال پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے جب کہ ماہی گیروں کو گہرے سمندر میں نہ جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
شرجیل میمن کا اتوار کو ایک بیان میں کہنا تھا کہ ساحلی اضلاع کی انتظامیہ مکمل طور پر الرٹ ہےجب کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے سرکاری ملازمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اضلاع سے باہر نہ جائیں۔
Government of sindh is completely monitoring the situation of weather in coastal areas. Fisherman are directed not to go to deep sea, administrations of the districts of the coastal areas are completely vigilant and on alert. Government employees are directed by the CM Sindh that…
— Sharjeel Inam Memon (@sharjeelinam) June 11, 2023
بحیرہ عرب میں موجود انتہائی سمندری طوفان ‘بپرجائے’ مزید شدت اختیار کر گیا ہے اور اس وقت کراچی کے جنوب سے لگ بھگ 760 کلو میٹر جب کہ ٹھٹھہ کے جنوب سے 740 کلو میٹر اور اوماڑہ کے جنوب مشرق سے 840 کلو میٹر دور موجود ہے۔
ملک میں قدرتی آفات پر نظر رکھنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے لوگوں کو سمندری طوفان کی وجہ سے ساحل سمندر سے دور رہنے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال کی صورت میں مقامی حکام کی ہدایات پر عمل کرنے کی اپیل کی ہے۔
محکمۂ موسمیات کا مزید کہنا ہے کہ طوفان 14 جون کو شمال مشرق کی جانب مڑ کر کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے ساحل کے درمیان سے ساحل سے ٹکرا سکتا ہے جب کہ اتوار اور پیر کی سہ پہر ملک کے وسطی اور جنوبی اضلاع میں آندھی اور تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔
Very Severe Cyclonic Storm %27BIPARJOY%27 in East-Central Arabian Sea has further intensified into an Extremely Severe Cyclonic Storm (ESCS), moved Northward. It is currently at a distance of 760km South of Karachi, 740km South of Thatta & 840km Southeast of Ormara. Maximum sustained… pic.twitter.com/ZxHl2sd87x
— PDMA Sindh (@pdmasindhpk) June 11, 2023
علاوہ ازیں محکمۂ موسمیات نے پیسیفک ڈیزاسٹر سینٹر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے لگ بھگ 13 لاکھ 80 ہزار افراد کو اس طوفان کی زد میں ہیں۔
محکمۂ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ بپرجائے کی شدت زیادہ ہے جسے کیٹیگری ٹو کی شدت کا قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سائیکلون کے گرد 130 سے 150 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں اور ایسا طوفان کافی شدت کا ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ بپر جائے سائیکلون 6 جون کو بنا تھا۔ بحیرۂ عرب اور خلیج بنگال میں مئی اور جون میں ایسے سائیکلون کا بننا عام بات ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایسے سائیکلون مون سون شروع ہونے سے قبل بنتے رہتے ہیں اور پھر مون سون ختم ہونے کے بعد اکتوبر اور نومبر میں بھی ان کا وجود عمل میں آجاتا ہے۔
صوبۂ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے کمشنر نے شہریوں کے ساحل سمندر پر جانے، مچھلی پکڑنے، کشتی رانی، تیراکی اور سمندر میں نہانے پر طوفان کے خاتمے تک کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر پابندی عائد کر دی ہے۔
پاکستان کے ساحل سے کتنے طوفان ٹکرائے؟
ڈھائی دہائی قبل 1999 میں سب سے تباہ کن طوفان جسے زیرو ٹو اے آیا تھا جو ٹھٹھہ، بدین کے ساحل سے ٹکرایا تھا۔
اس طوفان کے نتیجے میں کئی ہزار لوگ دربدر اور ماہی گیر لاپتا ہوگئے تھے۔
Cyclone #Biparjoy is tracking steadily northward in the Arabian Sea. Forecasts are split but suggesting that the cyclone will threaten southern Pakistan or Gujarat, India next week, with a slight chance of heading toward Oman.#CycloneBiparjoy #BiparjoyCyclone #بيبارجوي pic.twitter.com/Lp5bByvd2H
— Zoom Earth 🌎 (@zoom_earth) June 10, 2023
پاکستان کے ساحل کے قریب سے گزرنے والا ایک طوفان 2001 میں آیا تھا جس کے پیشِ نظر سات روز تک ساحلوں کو ہائی الرٹ رکھا گیا اور پھر اس طوفان کا رخ بھارتی گجرات کی جانب مڑ گیا۔
اسی طرح 2007 میں 'یمینن' نامی طوفان پسنی اور اوڑمارہ کے ساحلوں سے ٹکرایا تھا جب کہ کراچی میں بھی طوفان کے باعث مختلف حادثات میں 200 سے زائد اموات ہوئی تھیں۔
سال 2010 میں 'پھیٹ' نامی طوفان عمان سے ٹکرایا تھااور پھر اس کا رخ گوادر کی جانب مڑاجس نے تین سو ملی میٹر سے زائد بارش برسادی تھی۔
یہ طوفان کراچی او ر کیٹی بندر کے ساحل سے گزرا تھا تب وہ طوفان ایک ڈپریشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔
اسی طرح2014 میں 'نیلوفر' نامی طوفان کےپاکستان کے ساحل سے ٹکرانے کی خبریں تھیں لیکن یہ طوفان عمان کے ساحل تک جا پہنچا تھا۔
سال 2021 میں گلاب نامی طوفان آیاتھا اس کی بھی موجودگی کے سبب کراچی کو ہیٹ ویو کا سامنا رہا تھا تاہم وہ بھی کراچی کے ساحل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔