شام میں محصور کینیڈین باشندوں کو واپس لانے میں حکومت ناکام: رپورٹ

فائل

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی تازہ رپورٹ میں شام کے کیمپوں میں مقید کینیڈین شہریوں کی واپسی پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا کی حکومت اپنے شہریوں کی واپسی کے سلسلے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ شام کے کیمپوں میں محصور کینیڈا کے درجنوں شہریوں کو ابھی تک کینیڈا نے واپس نہیں بلایا، انہیں داعش کے دہشت گرد ہونے کے شبہے میں پکڑا گیا۔ اپنی ایک تازہ رپورٹ میں اس کا کہنا ہے کہ اندازاً 47 کینیڈین شہری شمالی شام کے کیمپوں میں قید ہیں، جہاں بہت زیادہ بھیڑ ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمگیر وبا شروع ہونے کے بعد سے کینیڈا نے 100 ممالک سے اپنے چالیس ہزار شہریوں کو واپس بلایا ہے، ان میں سے 29 شام سے بلائے گئے، مگر شام کے کیمپوں میں مقید اپنے شہریوں کو کینیڈا واپس لانے میں ناکام رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک سینئر محقق لیٹا ٹیلر نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر کینیڈا چند ہفتوں کے اندر پوری دنیا سے اپنے ہزاروں شہریوں کو واپس لا سکتا ہے تو پھر یہ شام میں محصور اپنے 50 سے بھی کم شہریوں کو واپس لانے میں پس و پیش کیوں کر رہا ہے؟ ان افراد کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں فوری طور پر واپس لانا چاہیے۔ ان میں 26 بچے بھی شامل ہیں، جن میں سے اکثر کی عمریں چھ سال سے بھی کم ہیں۔

کینیڈا کے حکام کا کہنا ہےکہ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ شام میں کینیڈا کے شہری کیمپوں میں ہیں۔ انہیں خاص طور سے ان بچوں کے بارے میں تشویش ہے جو شام کے کیمپوں میں محصور ہیں۔

کینیڈا کی وزارت خارجہ کی ترجمان باربرا ہاروے نے وی اے او کو بتایا کہ کینیڈا کے قونصل خانے کے حکام شامی کرد حکام کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں اور وہ کینیڈا کے ان شہریوں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں، جو ان کی حراست میں ہیں۔ ہم صورت حال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی اور کرونا وائرس کے حالات کی وجہ سے ہماری رسائی محدود ہے اور ہمیں ان کی مدد کے لیے پہنچنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔

دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ کا اصرار ہے کہ انہی حالات میں آخر امریکہ، جرمنی اور فرانس بھی شام سے اپنے شہریوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔ پچھلے ہفتے فرانس دس بچوں کو واپس لایا جو شمالی شام میں کرد کیمپوں میں قید تھے۔

شمالی شام میں تقریباً بارہ ہزار غیر ملکی تین کیمپوں میں رکھے گئے ہیں۔ ان میں الہول کیمپ بھی شامل ہے، جہاں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ خوراک کی قلت ہے اور دوا علاج کی سہولت مفقود ہے۔

کینیڈا کے حکام نے یہ بتایا ہے کہ کچھ قیدیوں کے کوائف جمع کرنے کا ابتدائی کام شروع کیا گیا تھا، مگر ایک ماہ بعد پر اسرار طور پر اس کام کو بند کر دیا گیا۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایسا کیوں کیا گیا۔

وائس آف امریکہ نے کرد حکام سے بھی رابطے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا آیا کینیڈا کے حکام نے اپنے شہریوں کے بارے کچھ معلوم کیا یا نہیں۔ ان میں آٹھ افراد پر الزام ہے کہ وہ داعش کے جنگجو ہیں۔

اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کینیڈا کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ کینیڈا کی حکومت کی یہ ترجیح ہے کہ وہ ایسے کینیڈین شہریوں کے بارے میں تفتیش کرے، انہیں گرفتار کرے، ان پر مقدمات قائم کرے جو دہشت گردی یا پر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہیں۔

شامی کرد حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے دنیا کے تمام ملکوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے مقید شہریوں کو واپس اپنے ملکوں میں لے جائے، کیوںکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ داعش قیدیوں اور ان کے خاندانوں کو غیر معینہ مدت کے لیے اپنے کیمپوں میں رکھ سکے۔

اس وقت امریکہ کی زیر حمایت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کی قید میں دس ہزار سے زیادہ داعش قیدی ہیں، جن میں سے تقریباً دو ہزار قیدیوں کا تعلق پچاس سے زیادہ ملکوں سے ہے، جب کہ بچے اور خواتین ان کے علاوہ ہیں۔