بھارتی کشمیر: تصاویر شیئر کرنے پر خاتون صحافی کے خلاف مقدمہ درج

مسرت زہرا (فائل فوٹو)

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف سوشل میڈیا پر مبینہ 'قوم دشمن' اور 'اشتعال انگیز' پوسٹس لگانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مسرت زہرا پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نےسوشل میڈیا پر ملک مخالف اور غیر قانونی مواد پوسٹ کیا ہے۔ جو امن و قانون میں خلل پیدا کرنے کا مؤجب بن سکتا ہے اور ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مفی تشخص پیش کرنے کے مترادف ہے۔

مسرت زہرا نے گزشتہ دنوں تین ایسی تصاویر ٹوئٹر اور فیس بک پر پوسٹ کی تھیں۔ جن میں سے دو تصاویر میں کشمیری خواتین کی روداد اور مشکل حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ جن کے شوہروں کو مبینہ طور پر بھارتی فوج نے ہلاک کیا تھا۔ جب کہ تیسری تصویر میں وردی میں ملبوس افراد کو ایک مقامی نوجوان کو گرفتار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

تاہم عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان تصاویر کے تعارفی الفاظ قابلِ اعتراض ہیں اور یہ تصاویر لوگوں کو ایجنسیوں کے خلاف اکسانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

یہ مقدمہ قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ (یو اے پی اے) اور انڈین پینل کوڈ کی متعلقہ دفعہ کے تحت درج کیا گیا ہے اور مسرت کو منگل کے روز سائبر کرائم مخالف پولیس تھانے میں پیش ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔

مسرت زہرا کو گزشتہ ہفتے ایک پولیس عہدیدار کے دفتر میں پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ جس کے بعد مسرت کے ساتھیوں نے یہ معاملہ ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار اور محکمہ اطلاعات کی سربراہ کے سامنے اٹھایا اور یہ سمجھا گیا کہ یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا ہے۔ لیکن پیر کو معلوم ہوا کہ سائبر پولیس نے مسرت زہرا کے خلاف باضابطہ ایف آئی آر درج کی ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر کے صحافی ایک انتہائی دشوار اور پُر آزمائش صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ (فائل فوٹو)

مسرت زہرا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی ان چند خواتین صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ جن کا شمار علاقے کی پہلی تین فوٹو جرنلسٹس میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے صرف چند برس پہلے اس پیشے کو اختیار کیا اور اس قلیل عرصے کے دوران ایک فری لانس فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے نام کمایا ہے۔ ان کے کام کو بھارت سمیت بین الاقوامی سطح پر بھی کافی سراہا گیا ہے۔

خیال رہے کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت ملزم کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف خصوصی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اسے سات سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔

صحافی تنظیموں اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی مذمت

مسرت زہرا کے خلاف پولیس کارروائی کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔

کشمیر پریس کلب اور صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اسے پریس اور اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف جارحیت قرار دیا ہے جب کہ مقدمہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت اور پولیس پر ذرائع ابلاغ کے نمائندے پر دباؤ کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے۔

صحافیوں کے خلاف کارروائیاں

اتوار کو پولیس نے بھارتی روزنامے 'دی ہندو' کے نامہ نگار پیرزادہ عاشق کو کئی گھنٹے حراست میں رکھا۔ اس کے دوران پیرزادہ عاشق سے ان کی چھپی دو خبروں کے بارے میں تفتیش کی گئی تھی اور انہیں مبینہ طور پر ہراساں بھی کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے بھی کشمیری صحافیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اگرچہ کشمیری صحافیوں اور اخبارات کو 1989 سے ہی غیر اعلانیہ سنسر شپ، سرکاری اشتہارات کی بندش، قید و بند، تذلیل، مار پیٹ، قاتلانہ حملوں اور ساتھیوں کے قتل جیسے مشکل مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔

مقامی نوجوانوں نے 1989 میں بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا تھا جب کہ بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں نے شورش کو دبانے کے لیے ایک سخت گیر مہم شروع کی تھی۔

صحافیوں کو ان کی رپورٹنگ اور مضامین پر تھانوں میں پولیس افسران کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو)

بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر کے صحافی ایک انتہائی دشوار اور پُر آزمائش صورتِ حال سے دوچار ہیں اور صحافیوں کے لیے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔

گزشتہ سال پانچ اگست کو بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے براہِ راست نئی دہلی کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے اقدامات سامنے ائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست میں لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ سمیت تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کو معطل کیا گیا تھا۔ پوری ریاست میں کرفیو یا کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی گئی تھیں جب کہ سیکڑوں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا-

اگرچہ یہ پابندیاں بعد میں اُٹھا لی گئیں تھی۔ تاہم ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروس پر ابھی بھی پابندی برقرار ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ، ڈاکٹروں، طبی عملے، ٹریول ایجنسیوں، ٹریڈ اسٹارٹ اپس اور آن لائن سروسز سے وابستہ افراد متاثر ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دشواری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

صحافیوں کو ان کی رپورٹنگ اور مضامین پر تھانوں میں پولیس افسران کے سامنے پیش ہونے کے لیے کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ کئی ایسے صحافیوں نے الزام لگایا ہے انہیں بالواسطہ دھمکیاں بھی دی گئیں۔

دوسری طرف پولیس عہدیدار ان الزامات سے کی تردید کرتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ صرف امن و امان کو برقرار رکھنے اور عوام کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے غلط رپورٹنگ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔ نیز انہیں آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر قدغنیں لگانے کی کوشش نہ سمجھا جائے۔