کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق کے باوجود چین اور بھارت کے الزامات

(فائل فوٹو)

بھارت اور چین کے درمیان ایک جانب سرحدی کشیدگی کم کرنے کے لیے فوجی و سفارتی سطح پر رابطے ہو رہے ہیں تو دوسری جانب سرحد پر کشیدگی بھی برقرار ہے جب کہ دونوں ملک ایک بار پھر ایک دوسرے کو سرحدی خلاف ورزی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان بدھ کو سفارتی سطح پر مذاکرات ہوئے جب کہ متنازع علاقوں سے فوج کی واپسی اور کشیدگی کو کم کرنے کے سلسلے میں 6 اور 22 جون کو سینئر فوجی افسران میں ہونے والے سمجھوتے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا ہے۔

ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہونے والے سفارتی مذاکرات میں سرحد کی صورت حال پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

چار گھنٹے تک ہونے والی بات چیت کے بعد بھارت کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ بھارت نے 15 جون کو گلوان وادی میں ہونے والی پُرتشدد جھڑپ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس جھڑپ مین چین کے فوجیوں کے ہاتھوں 20 بھارتی اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔

بیان کے مطابق مذاکرات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ فریقین کو 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول' (ایل اے سی) کا پوری طرح احترام کرنا چاہیے۔ دونوں اس بات پر راضی ہوئے کہ جو سمجھوتہ ہوا ہے۔ اس کو باہمی معاہدوں اور پروٹوکول کے مطابق تیزی سے نافذ کیے جانے سے سرحدی علاقوں میں امن ہوگا جب کہ دونوں ممالک میں وسیع تر بہتر تعلقات میں مدد ملے گی۔

جس وقت نئی دہلی اور بیجنگ میں یہ مذاکرات جاری تھے تقریباً اسی وقت چین کی وزارتِ خارجہ و دفاع کی جانب سے گلوان جھڑپ کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھیرایا گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

چین بھارت جھڑپ کے بعد کشمیر میں فوجی نقل و حرکت

چینی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ بھارت کی وزراتِ خارجہ اور میڈیا کی جانب سے مذکورہ واقعے کے سلسلے میں جھوٹی اطلاعات پھیلائی جا رہی ہیں۔

انہوں نے بھارت پر باہمی سمجھوتوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور جھڑپ کے لیے اشتعال دلانے کا الزام بھی عائد کیا۔

چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ جھڑپ کے لیے چین پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ بھارتی فوجیوں نے پہلے ایل اے سی عبور کی۔

انہوں نے بھارت پر سرحد کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ گلوان وادی میں ایل اے سی چین کی حدود میں ہے۔ لہذٰا بھارت گلوان وادی سے نکل جائے۔

بھارت سرحد کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کا الزام چین پر عائد کرتا ہے اور گلوان پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے۔ بھارتی سیاست دانوں کے مطابق گلوان وادی ہمیشہ بھارت کا حصہ رہی ہے۔ اس پر کبھی کوئی تنازع نہیں رہا۔

چین کے ان الزامات کے سلسلے میں بھارت کی جانب سے تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار قربان علی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے نیپال کو اپنے اثر میں لے لیا ہے۔ بنگلہ دیش میں اس کی سرمایہ کاری ہے۔ سری لنکا اور مالدیپ میں بھی وہ سرگرم ہے۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جانب سے حکومت پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال سے نمٹنے میں ناکام ہے اور اس نے بھارتی علاقے کو چین کے حوالے کر دیا ہے۔

قربان علی کے خیال میں بھارت کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہے اور حکومت حزبِ اختلاف کو اعتماد میں نہیں لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر چین میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کو وزیر خارجہ بنائے جانے کے بعد یہ امید تھی کہ بھارت چین رشتے بہتر ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے اور حکومت ملک کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے۔ پارلیمنٹ چل نہیں رہی ہے اور وزیر اعظم میڈیا میں آ کر کوئی بات بتانے کو تیار نہیں ہیں۔

بھارت کے آرمی چیف نے بھی لداخ کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ نئی دہلی واپسی پر بھارتی آرمی چیف نے سیاسی قیادت کو سرحد کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کیا۔

بھارت کا ردعمل

بھارت نے مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں 15 جون کو بھارت اور چین کی فوج میں ہونے والی پرتشدد جھڑپ کے لیے چین کو ذمہ دار ٹھیرا دیا ہے۔

جمعرات کو ایک بیان میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستو نے کہا کہ چین مئی کے اوائل سے ہی ایل اے سی پر فوج اور ہتھیار اکٹھے کر رہا تھا۔ اُن کے بقول یہ چین اور بھارت کے باہمی سمجھوتوں کی خلاف ورزی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بھارت نے کبھی بھی ایل اے سی میں تبدیلی کی کوشش نہیں کی جب کہ چین یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں برقرار رہنا بھارت کے موقف کی تائید ہے۔

ترجمان کے بقول پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی مناسب کارروائی نہیں کی۔