کرونا نے لوگوں کے مزاج کو چڑ چڑا کر دیا ہے: ماہرینِ نفسیات

  • مدثرہ منظر

فائل فوٹو

کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کے ملکوں کے مقابلے میں امریکیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ایسے میں طبیعت کی تیزی اور بدمزاجی کے واقعات زندگی کو لاحق خطرات میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

امریکہ میں صحت کے ماہرین ابھی تک کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز سے نمٹنے کی تگ و دو کر رہے ہیں، بعض ریاستوں میں تو دوبارہ لاک ڈاؤن کا مشورہ بھی دیا جا رہا ہے۔ جمعرات کی صبح تک امریکہ میں تیس لاکھ ستاون ہزار سے زیادہ کرونا کے کیسز سامنے آچکے تھے اور مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ بتیس ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔

یہ اعدادوشمار کسی بھی ملک کے لوگوں کیلئے تشویش کا باعث ہو سکتے ہیں اور ہر ذہن میں یہی سوچ ہوگی کہ اس وبا سے کیسے چھٹکارا ملے اور اپنی حفاظت کیلئے کیا کیا جائے۔

مگر ان ہی دنوں میں امریکہ کے بعض شہروں میں تشدد کے ایسے واقعات ہوئے اور اتنی تعداد میں ہوئے کہ یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ آیا یہ اس ذہنی انتشار کا نتیجہ ہے جو کرونا وائرس کی وبا سے پیدا ہوا یا کچھ لوگ صرف تشدد پر ہی یقین رکھتے ہیں خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔

چونکہ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ جون کا مہینہ ختم ہو رہا تھا اور اس کے آخری اختتامِ ہفتہ صرف شکاگو میں سترہ افراد کو ہلاک کر دیا گیا جن میں دو بچے شامل تھے اور اسی افراد زخمی ہوئے۔

ریاست مزوری کے کینساس سٹی میں اس چار سالہ بچے کا کیا قصور تھا جو اپنے گھر میں سویا ہوا تھا اور ایک نا معلوم گولی نے اسےہمیشہ کی نیند سلا دیا۔

عینی شاہدوں نے بتایا ہے کہ انتیس جون کو لیجنڈ ٹیلیفیرو کو لگنے والی گولی اس کی اپارٹمنٹ بلڈنگ کے باہر ہونے والی فائرنگ سے آئی تھی جس میں بلڈنگ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

بروکلین نیویارک میں لوگ کتبے اٹھائے بروکلین برو ہال کے باہر جمع ہوئے جہاں جوتوں کے ایک سو ایک جوڑے رکھے تھے اور ایک تابوت جو ان لوگوں کی یاد میں تھے جو گذشتہ ایک ہفتے کے دوران اس علاقے میں گن وائلینس کا شکار ہوئے۔

ڈاکٹر سہیل چیمہ نیو یارک میں نفسیاتی امراض کے ماہر ہیں۔ ایک سائیکیٹرسٹ کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو اس حد تک پریشانی، خوف اور ڈیپریشن میں مبتلا کیا ہے کہ انہوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران امریکہ میں اسلحہ کی خریداری میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ملازمت نہ ہونے اور گھر سے باہر نہ نکل سکنے کے خوف نے انسان کو عدم تحفظ کا شکار کیا ہے، چنانچہ لوگوں نے گنز کی خریداری بھی زیادہ کی اور اس کا استعمال بھی زیادہ نظر آرہا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں کرونا کی وبا اور بڑھتا ہوا تشدد

شکاگو کے نواحی علاقے بولنگ بروکس کے پولیس کمشنر طلعت رشید نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات میں اضافے کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ کرونا وائرس کے خطرے کے پیشِ نظر ریاست نے ایسے مجرموں کو رہا کر دیا جن پر الزامات زیادہ شدید نوعیت کے نہیں تھے، لیکن وہ دوبارہ جرائم میں ملوث ہوگئے۔

انھوں نے کہا کہ پولیس کے خلاف حالیہ احتجاجی مظاہروں نے پولیس میں یہ سوچ پیدا کردی ہے کہ سول سوسائٹی ان کے خلاف ہے اور اب جرائم کی بیخ کنی کے لئے اس جذبے کا اظہار نہیں کر رہے جو پہلے کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جرائم کی روک تھام کیلئے پولیس کا کمیونٹی سے قریبی رابطہ ضروری ہے۔ اب اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ پولیس کو کمیونٹی کے ساتھ زیادہ رابطے میں رہنا چاہئے اور لوگوں کے مسائل کو جاننا چاہئے ساتھ ہی جرائم پیشہ گروہوں کے سرغنوں کو بھی پکڑنا چاہئے اور احساس دلانا چاہئے کہ زندگی بے حد قیمتی ہے۔ وہ لوگوں کی جانوں سے نہ کھیلیں۔

ڈاکٹر سہیل چیمہ نے بتایا کہ اگرچہ تشدد کے واقعات عام دنوں میں بھی ہوتے ہیں مگر ان دنوں ان کی شدت اس لئے زیادہ محسوس ہو رہی ہے، کیونکہ اس وقت لوگ پریشان زیادہ ہیں۔ پولیس سے شکایت لوگوں کو پہلے بھی تھی مگر جارج فلائید کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران موت پر احتجاج میں شدت زیادہ نظر آئی۔

انہوں نے کہا کہ انسان کے تحفظ کے کچھ انداز ہیں جنہیں سائیکلوجیکل ڈیفنس میکانزم کہا جاتا ہے۔ اس میں انسان اپنے تحفظ کے لئے شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ قدم اٹھاتا ہے جسے نفسیات کی زبان میں ایکٹ آؤٹ کرنا کہتے ہیں۔ تشدد کے یہ واقعات وبا کے ان دنوں میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے لوگوں کا اقدام بھی ہو سکتا ہے۔

شکاگو کے پولیس کمشنر طلعت رشید نے کہا ہے کہ کووڈ 19 نے جس طرح لوگوں کو زندگی سے بیزار کیا ہے اس کے ردِ عمل میں، ایک جائزے کے مطابق، امریکہ میں شراب نوشی بڑھ گئی ہے۔

ڈاکٹر سہیل چیمہ نے کہا کہ آپ دیکھیں گے کہ وبا کے باعث اقتصادی مشکلات کے شکار لوگ مایوسی اور ڈیپریشن میں منشیات کا استعمال بھی کرنے لگیں گے۔

جب حالات معمول کے مطابق ہوتے ہیں تو پرتشدد واقعات، جرائم سب معمول کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں مگر ایسے میں جب ہر کوئی ایک ہلاکت خیز وائرس سے بچنے کی سعی کر رہا ہے اس طرح کے واقعات ایک لمحے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ انسان کے کتنے روپ ہیں۔ آخر کیا ہو جو اسے انسانوں سے دشمنی کے بجائے انسانیت سے محبت سکھا دے۔

طلعت رشید نے کہا کہ جرائم زیادہ وہ لوگ کرتے ہیں جو بے روزگار اور مالی مشکلات کا ہوتے شکار ہیں؛ چنانچہ شہری انتظامیہ کو اس جانب بھی توجہ دینا ہو گی۔

اتنا تو ہوا کہ ننھے لیجنڈ نے جان دے کر حکومتی ایوانوں کو ایک اہم مسئلے کی اہمیت کا احساس دلایا کہ تشدد زندگی کا سب سے بڑا خطرہ ہے، چنانچہ اب امریکی محکمہ انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے ایجنٹ آئندہ دس روز تک ریاست مزوری کے کینساس سٹی میں رہیں گے اور پر تشدد واقعات کی روک تھام میں انتظامیہ کی مدد کریں گے۔ اسے 'آپریشن لیجنڈ' کا نام دیا گیا ہے۔