ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد

ملی مسلم لیگ کے وکیل نے الیکشن کمشین سے سوال کیا کہ وہ کس قانون کے تحت وزارتِ داخلہ سے رجوع کریں کیونکہ ان کے بقول کسی بھی جماعت کو رجسٹرڈ کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملی ملسم لیگ کی بطور سیاسی جماعت رجسٹریشن کے درخواست مسترد کر دی ہے۔

الیکشن کیمشن کے ایک عہدیدار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی سربراہی میں قائم بینچ نے سنایا۔

بدھ کی دوپہر سنائے جانے والے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جب تک وزارت داخلہ کی طرف سے ملی مسلم لیگ سے متعلق تحفظات موجود ہیں اس وقت تک اس جماعت کو رجسٹر نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بدھ کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی سربراہی میں قائم بینچ کے سامنے وکیل راجہ عبدالرحمٰن نے جب ملی مسلم لیگ کو رجسٹر کرنے کے حق میں دلائل دیے تو چیف الیکشن کمشنر نے ان کی توجہ وزارت داخلہ کے ایک خط کی طرف دلاتے ہوئے کہا کہ وہ مجوزہ سیاسی جماعت سے متعلق وزارتِ داخلہ کے تحفظات کو دور کریں۔

اس پر ملی مسلم لیگ کے وکیل نے الیکشن کمیشن کے سامنے موقف اختیار کیا کہ وہ کس قانون کے تحت وزارتِ داخلہ سے رجوع کریں، کیونکہ ،ان کے بقول، کسی بھی جماعت کو رجسٹرڈ کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ پارٹی نے اپنی رجسٹریشن کی درخواست میں الیکشن کمیشن کے تمام ضروری لوازامات پورے کیے ہیں اور اگر کوئی قابلِ اعتراض بات ہے تو وہ سامنے لائی جائے۔

ملی مسلم لیگ کے صدر سیف اللہ خالد نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کونسل کی قیادت کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ وہ قانون کے مطابق سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیں، لیکن اُنھیں روکا جا رہا ہے۔

سیف اللہ خالد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اس حق کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے ایک خط کے ذریعے الیکشن کمیشن کو ملی مسلم لیگ کو یہ کہتے ہوئے رجسٹرڈ نہ کرنے کی سفارش کی تھی کہ اس کا تعلق مبینہ طور پر ایک کالعدم جماعت لشکر طیبہ سے ہے۔

رواں سال اگست میں جماعت الدعوۃ نے ’ملی مسلم لیگ‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ملک کے اندر اور باہر بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

بعض مبصرین نے اسے عسکریت پسند عناصر کو ملک کے قومی دھارے میں شامل کرنے کی ایک کوشش سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پیش رفت کے مضمرات ہو سکتے ہیں۔

سیاسی اور سماجی امور کے تجزیہ خادم حسین نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے گروپوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے سے پہلے پارلیمان اور عوامی سطح پر کھلے مکالمے کی ضرورت ہے۔

اُن کے الفاظ میں، ’’اس معاملے پر پورے طریقے سے میڈیا اور پارلیمان میں بحث کا نا ہونا شکوک کو جنم دے رہا ہے اور بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اس کی وجہ سے پہلے سے موجود انتہا پسند عناصر کی (تعداد) بڑھنے کا امکان ہے۔۔‘‘

تاہم، سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد بلال کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ملی مسلم لیگ سے متعلق فیصلے سے انتہا پسند سوچ رکھنے والے عناصر کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

بقول اُن کے، ’’ہمیں تو ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے کہ ایسے عناصر اگر ماضی میں خفیہ اور تشدد آمیز کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں، اگر وہ ان کو چھوڑ کا قومی دھارے میں کھلے عام شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔‘‘

جماعت الدعوۃ اور لشکر طیبہ کا شمار ان تنظیموں میں ہوتا ہے جن پر اقوامِ متحدہ کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

لشکر طیبہ اور حافظ سعید کو امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور ان کی گرفتاری میں مدد دینے لیے ایک کروڑ ڈالر کا انعام بھی مقرر کر رکھا ہے۔