ہو سکتا ہے یمن میں امارات اور سعودیوں سے جنگی جرائم سرزد ہوئے ہوں: ماہرین

یمن

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’(ہم) معقول وجوہ کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ یمن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہی ہیں‘‘

اقوامِ متحدہ کے حقوق انسانی کے ایک اعلیٰ ترین ادارے سے وابستہ تین ماہرین نے کہا ہے کہ یمن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی حکومتیں جنگی جرائم کی ذمے دار ہو سکتی ہیں، جس میں عصمت دری، اذیت، لاپتا کیے جانے اور ’’زندہ رہنے کا حق چھیننا‘‘ شامل ہے، جو گذشتہ تین برسوں سے یمن کے باغیوں کے خلاف صف آرا ہیں۔

انسانی حقوق کونسل کی جانب سے پیش کردہ اپنی پہلی رپورٹ میں ماہرین نے یمن میں باغی شیعہ ملیشیا کے ممکنہ جرائم کی نشاندہی بھی کی، جو مارچ 2015ء سے جاری خانہ جنگی کے دوران سعودی قیادت والا اتحاد اور یمن کی حکومت سے نبرد آزما ہے۔

ماہرین نے اتحاد کی جانب سے کی گئی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں آنے والی تباہی کا بھی ذکر کیا، جو گذشتہ برس سے لڑائی کی مہلک ترین فورس ثابت ہوئی ہے۔

اُنھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ’’تنازع میں استعمال ہونے والے اسلحے کی فراہمی سے احتراز کریں‘‘۔۔۔ جو امریکہ اور برطانیہ سمیت ہتھیار دینے والے ملکوں کی طرف اشارہ ہے، جو سعودی قیادت والے اتحاد کو اسلحہ دیتے ہیں؛ اور ساتھ ہی ساتھ اس میں ایران شامل ہے، جن پر اتحادی حوثیوں کو ہتھیار دینے کا الزام لگاتے ہیں۔

رپورٹ ترتیب دیتے ہوئے ماہرین نے یمن کے تمام حصوں کا نہیں بلکہ چند حصوں کا دورہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’(ہم) معقول وجوہ کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ یمن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہی ہیں‘‘۔

اس میں اُن خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں وہ غیر قانونی ’’زندگی کا حق چھیننا‘‘، متنازع حراست، عصمت دری، اذیت، لاپتا کیے جانے اور بچوں کو بھرتی کرنے کا عمل شامل ہے۔

سعودی، امارتی اور یمن کے حکام نے منگل کے روز فوری طور پر اپنا ردعمل دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ ٹوئٹر پر، امارات کے مملکتی وزیر برائے امور خارجہ، انور غرغاش نے لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو چاہیئے کہ وہ ’’اس پر نظر ثانی کرے، اورحوثیوں کی تباہ کاریوں کے معاملے پر نکتوں کا خاطرخواہ جواب دے‘‘۔

بعدازاں، سعودی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ اتحاد کو اقوام متحدہ کی رپورٹ موصول ہوگئی ہے، جو اُس نے نظر ڈالنے کے لیےاپنے وکلا کو بھیج دی ہیں، جس کے بعد وہ ’’اس پر مناسب مؤقف اختیار کرے گی‘‘۔

ایسو سی ایٹڈ پریس نے گذشتہ برس اطلاع دی تھی کہ متحدہ عرب امارات اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں نے خفیہ حراستی تنصیبات کا جال بچھا رکھا ہے، جو یمنی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۔ جون میں اے پی نے انکشاف کیا تھا کہ سینکڑوں قیدیوں کو جسمانی تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ’’اصل اختیار رکھنے والے حکام‘‘، وہ باغی سردار جنہیں ملک کے گنجان آباد مغربی اور کچھ شمالی علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے، پر الزام لگایا ہے کہ وہ خودسر حراستوں، اذیت اور کم عمر بچوں کی بھرتی کے جرائم میں ملوث ہیں۔ انسانی حقوق کے داعیوں نے حوثیوں پر بارودی سرنگیں بچھانے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور مخالفین کو قید میں ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔

تیونس سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل، کامل جندوبی، جنھوں نے ماہرین کے گروپ کی سربراہی کی ہے، کہا ہے کہ اُنھوں نے بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے والے مشتبہ افراد کی ’’خفیہ فہرست‘‘ انتہایہ پیشہ ورانہ انداز سے ترتیب دی ہے، جسے منگل کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کے دفتر کے حوالے کیا گیا ہے۔

اُنہوں نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی آیا فہرست میں کون لوگ یا گروپ شامل ہیں، جن کا تعلق حکومت یا باغی فریق سے ہے۔