شدید موسموں کا خطرہ بڑھ رہاہے

ہماری دنیا کو پچھلے بہت عرصے سے موسموں میں ہونے والی شدت کا سامنا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق پچھلی آدھی صدی سے موسموں میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی تپش میں اضافہ ہوا ہے۔ موسموں کے تغیرات سے متعلق ایک عالمی تنظیم نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موسموں کی شدت سے بچنے کے لیے اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔

2010ء میں پاکستان میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے پاکستان میں تقریبا 16 سو لوگ موت کے منہ میں چلے گئے تھے جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ یہ سیلاب مون سون سلسلے کی شدید بارشوں کا نتیجہ تھے۔
سال 2011ءمیں دنیا کے کئی ملکوں کو سخت موسموں کا سامنا رہا۔ 2011ء کے آغار میں امریکی ریاستوں اوہائیو اور آرکنساس اور میں شدید طوفانوں نے تباہی مچائی تھی۔

پچھلے سال امریکہ میں1600 کے قریب ٹارنیڈوز یا طوفانی جھکڑ طوفان ریکارڈ کیے گئے، جبکہ اس سال امریکہ میں روایتی سردی بھی نہیں پڑی۔

اس سال واشنگٹن ڈی سی میں سردی کا دورانیہ معمول سے کم رہا اور1895ء کے بعد سے یہ دسواں موقع تھاکہ دارالحکومت میں سردیوں کا موسم بہت معتدل رہا۔۔۔ چیری بلاسم کے پھول جو واشنگٹن ڈی سی میں بہار کی آمد کا پتہ دیتے ہیں، اس مرتبہ نسبتا گرم موسم کی وجہ سے معمول سے بہت پہلے کھل کر اب مرجھانا شروع ہوچکے ہیں۔

دنیا کے بہت سے دیگر ممالک بھی سخت موسموں کی لپیٹ میں رہے۔2011ء میں تھائی لینڈ میں سالانہ اوسط سے تقریبا 80 فیصد زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کے دارالحکومت بنکاک میں سیلاب بھی آئے۔ سال 2010ء میں روس میں گرمی کا 500 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیاتھا۔

موسموں کے حوالے سے عالمی تنظیم انوائرمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج کی حالیہ رپورٹ کے مطابق موسموں کی شدت میں اضافہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

تنظیم کے ماہرین کا کہناہے کہ اس وقت گرمی کی جن شدتوں کا ہمیں ہر بیس سال بعد سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس صدی کے آخر تک یہ شرح بیس کی بجائے ہر دو سال بعد ہوا کرے گی۔

لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ خراب موسم سے پیدا ہونےو الی تباہی کے کسی ایک واقعے کوعالمی سطح پر موسموں میں کسی مستقل تبدیلی سے جوڑا نہیں جا سکتا۔ ان کے مطابق معدنی ذخائر سے ایندھن کے حصول کے لیےفضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں کا اخراج فضائی آلودگی پیدا کرتا ہے جس سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر صورتحال یہی رہی تو ہمیں دنیا بھر میں زیادہ خشک سالی، زیادہ بارشوں اور سخت طوفانوں کا سامنا ہوگا۔

موسمی تغیرپر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم کی اس رپورٹ کے مطابق شدید موسموں کی وجہ سے ہونے والی تباہی دنیا بھر میں سالانہ تقریبا اسی ارب ڈالر کے نقصان کا سبب بنتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید موسم کی سختیوں سے ترقی پذیر ممالک کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں۔ تاہم ماہرین کو امید ہے کہ اگر اس رپورٹ کے نتائج دیکھتے ہوئےچند بنیادی اقدامات اٹھا ئے جائیں، تو موسموں کی شدت سے ہونے والے نقصان میں کمی لانا ممکن ہے ۔