'چلو شکر ہے کسی کو تو انصاف ملا'

جسٹس فائز عیسیٰ (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ سننے کے لیے کمرہ عدالت میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ کرونا کی صورتحال کے باعث تمام افراد سماجی فاصلہ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن، ایسی گنجائش موجود نہ تھی۔ کرسیوں پر اگرچہ ایک نشست چھوڑ کر بیٹھنے کا کہا گیا تھا۔ لیکن، تمام کرسیاں بھری ہوئی تھیں۔

اپنے مقررہ وقت سے دس منٹ تاخیر کے ساتھ تمام جج صاحبان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بسم اللہ کے بعد سورۃ الشعرا کی دو آیات پڑھیں جن میں استقامت کے ساتھ صحیح فیصلہ کرنے کی دعا کی گئی تھی۔

جسٹس عمر بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنانا شروع کیا۔ اور جیسے ہی انہوں نے فائز عیسیٰ کی پٹیشن منظور ہونے کا اعلان کیا، کمرہ عدالت میں دبی دبی سی جوش بھری آوازیں سنائی دینے لگیں؛ اور کئی صحافی کمرہ عدالت سے باہر کی طرف بھاگے۔

لیکن، ایک ٹی وی کے صحافی نے بہت دلچسپ انداز اپنایا کہ میڈیا کارنر کے باہر موجود اپنے ایک ساتھی کو کوڈورڈ میں انگوٹھے کا نشان بنا کر بتایا جس کا مطلب تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی پٹیشن منظور ہوگئی۔ میں نے پوچھا کہ اگر نہ منظور ہوتی تو پھر کیا ہونا تھا؟ اس نے انگوٹھا نیچے زمین کی طرف کر کے کہا پھر یہ ہونا تھا۔


کمرہ عدالت میں تمام ججز ماسک پہن کر بیٹھے ہوئے تھے۔ جسٹس عمر عطا بندیال بھی ماسک پہن کر بیٹھے تھے۔ لیکن فیصلہ پڑھنے سے قبل انہوں نے اپنا ماسک اتار کر سامنے میز پر رکھا اور فیصلہ سنانے لگے۔

اختلافی نوٹ پڑھتے ہوئے تمام لوگوں کی نظریں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مرکوز تھیں۔ لیکن، تینوں ججز انہماک سے اپنے سامنے موجود کاغذوں کو دیکھتے رہے۔

کمرہ عدالت کے باہر ایک عرصہ کے بعد وہی گہماگہمی دیکھنے میں آئی جو اس سے قبل نواز شریف کے خلاف کیس یا پھر عمران خان کے خلاف صادق اور امین والے کیس میں دیکھنے میں آتی تھی۔ پولیس کی نفری معمول سے کہیں زیادہ تعینات کی گئی تھی۔ بیشتر پولیس والے میڈیا والوں کو ہی گھور رہے تھے جو بہت جوش و خروش سے اپنے اپنے دفتر فون کرکے ٹکرز لکھوا رہے تھے اور بیپر دیے جا رہے تھے۔

آخر کار ایک پولیس افسر سے رہا نہ گیا اور مجھ سے پوچھا کہ سر فیصلہ کیا آیا ہے۔ جب آسان لفظوں میں بتایا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سچے ثابت ہوئے ہیں تو مسکراتے ہوئے بولا چلو کسی کو تو انصاف ملا اور دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر جاکر کھڑا ہوگیا۔

فیصلہ سنانے کے بعد جج صاحبان واپس چلے گئے اور وکلا باہر کی طرف نکلے اور ان میں سب سے زیادہ تیزی سے حکومتی وکیل فروغ نسیم تھے جو سب سے آگے چلتے ہوئے باہر کی طرف چلے۔

میڈیا نے ان کا ردعمل جاننے کی بہت کوشش کی۔ سوالات بھی داغے۔ لیکن فروغ نسیم نے کوئی جواب نہ دیا۔ عمارت کے باہر میڈیا ڈائس کے قریب بھی ان سے بات کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ چلتے رہے اور باہر آکر اپنی کالے رنگ کی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔

ان کے بعد بار ایسویسی ایشن اور دیگر مخالف وکلا وکٹری کا نشان بناتے ہوئے باہر آئے۔ سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے مٹھائی کے ٹوکرے کا بندوبست کر رکھا تھا اور وہ خود سب کو مٹھائی کھلا رہے تھے۔

ہاتھ میں رس گلہ پکڑے ایک صحافی دوست نے کہا کہ یہ مٹھائی صرف فائز عیسیٰ کی جیت کی نہیں پاکستان کی اسٹیبشمنٹ کی ہار کی ہے جس نے مستقبل کے چیف جسٹس کو راستے سے ہٹانے کی پوری کوشش کی۔ ایک دوسرا صحافی دوست بولا کہ فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سال 2023 میں بننا ہے۔

اس وقت تک نہ معلوم کیا کیا کچھ ہوتا ہے۔ ویسے بھی ابھی ایف بی آر کی کارروائی اور سپریم جوڈیشل کونسل میں معاملہ جانے کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔ نہ معلوم کیا کچھ ہو جائے؟

منیر اے ملک جو فائز عیسیٰ کے وکیل تھے انہوں نے بھی اس بارے میں اپنی مکمل رائے دینےسے انکار کیا اور کہا کہ میں تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد کوئی بات کرسکوں گا۔ میں نے صرف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا نہیں بلکہ بدنیتی، ججز کی جاسوسی، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت سمیت کئی باتوں پر دلائل دیے تھے۔ پہلے ان پر فیصلہ سامنے آجائے تو کوئی بات سامنے آسکے گی۔

منیر اے ملک سے جب پوچھا کہ آپ کو کسی نے مٹھائی پیش کی ہے تو بولے کہ ''مٹھائی تو ملی نہیں ویسے بھی اگر مل بھی جاتی تو نہ کھا سکتا۔ آج میرا روزہ ہے''۔