فرانس اور جرمنی کے تعلقات میں ’تناؤ کا خطرہ‘

سرکوزی، مرکل

2012ء میں فرانس میں بائیں بازو کے فرانسوا اولاندے برسرِ اقتدار آئے تو فرانس اور جرمنی کے تاریخی تعلقات خطرے میں پڑ گئے۔
یورپی یونین کی کارکردگی میں فرانس اور جرمنی کے درمیان تعلقات کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں، ان دونوں ملکوں کے قدامت پسند لیڈر، جرمنی کی خاتون چانسلر انجلا مرکل اور فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی، اقتصادی بحران کے زمانے میں یورو زون کے بارے میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ فیصلے کرتے رہے ہیں۔

لیکن 2012ء میں فرانس میں بائیں بازو کے فرانسوا اولاندے برسرِ اقتدار آئے تو فرانس اور جرمنی کے تاریخی تعلقات خطرے میں پڑ گئے۔

دسمبر کے شروع میں جب یورپی یونین کو امن کا نوبیل انعام ملا، تو جرمن چانسلر انجلا مرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولاندے یکجہتی کے اظہار کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے۔ نوبیل کمیٹی کے چیئر مین تھوربجورن جگلینڈ نے اسے خوش آئند علامت قرار دیا ۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج یہاں جرمن چانسلر انجلا مرکل اور فرانس کے صدر فرانسوا اولاندے کی موجودگی نے اس دن کو خاص طور سے یکجہتی کی علامت بنا دیا ہے۔‘‘

لیکن اتحاد کی اس علامت نے یورپ کے دو سب سے طاقتور لیڈروں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات پر پردہ ڈال دیا تھا۔

لندن میں سینٹر فار یورپین ریفارم کے فلپ وائیٹ کہتے ہیں کہ کون سی چیز یورو زون کے لیے اچھی ہے، اس بارے میں ان سیاست دانوں کے درمیان بنیادی اختلافات ہیں۔ ان کے مطابق ’’اولاندے بائیں بازو کی شخصیت ہیں۔ انجلا مرکل دائیں بازو کی خاتون ہیں۔ یوروزون کو کونسی راہ اختیار کرنی چاہیئے، اس بارے میں اولاندے کے خیالات بالکل مختلف ہیں۔ گذشتہ چھہ مہینوں میں فرانس اور جرمنی کے تعلقات میں جو کشیدگی اور اختلافات پیدا ہوئے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہی ہے۔‘‘

چانسلر مرکل یورپ کی مضبوط ترین معیشت کی سربراہ ہیں، اور انھوں نے پورے یورپ میں مالیاتی نظم و ضبط اور اخراجات میں کمی کے سخت اقدامات پر زور دیا ہے۔

لیکن یورو زون کے بہت سے ملکوں میں اخراجات میں کمی کے اقدامات روز بروز غیر مقبول ہوتے جا رہے ہیں، اور ان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہے ہیں۔

بے روزگاری کا دور دورہ ہے اور یورو زون کے ملکوں میں شدید کساد بازاری پھیلی ہوئی ہے۔

اب سیاستدان اور اقتصادی ماہرین یہ کہنے لگے ہیں کہ اقتصادی سرگرمیوں میں جان ڈالنے کے اقدامات کے بغیر، محض کفایت شعاری اور سرکاری اخراجات میں کمی سے معیشتیں غلط راہ پر چل پڑی ہیں۔

جہاں تک اولاندے کا تعلق ہے، انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں کفایت شعاری کی مہم کو نرم کرنے اور حکومت کی توجہ اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے اقدامات پر زور دیا تھا۔

انہیں مسز مرکل کی مالیاتی یکجہتی اور ممکنہ طور پر یورپی بینکنگ یونین جیسے اداروں کی تجویزوں سے بھی اختلاف ہے۔

وائیٹ کہتے ہیں کہ ان اختلافات کی وجہ سے مسلسل مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا۔ فرانسوا اولاندے کو مائکرو اکنامکس اصلاحات میں اتنی دلچسپی نہیں ہوگی جتنی انجلا مرکل چاہتی ہیں۔ جرمنی کے مقابلے میں اولاندے کو بینکنگ یونین جیسے اداروں کی تشکیل میں زیادہ دلچسپی ہوگی۔ کاروبارِ زندگی چلتا رہے گا لیکن حالات مشکل ہوں گے۔‘‘

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر فرانس اور جرمنی میں مکمل ہم آہنگی نہ ہوئی تو یورو زون میں پیش رفت ہموار نہیں ہوگی۔ لندن کے کنگز کالج میں یورپ کی ماہر لیلا تالانی کہتی ہیں کہ ’’یورپ کی یکجہتی کے سلسلے میں جو بھی اہم فیصلہ ہوتا ہے وہ فرانس اور جرمنی مل کر کرتے ہیں۔ لہٰذا، بحران کے طے کرنے میں، ان کے درمیان اختلافات کے بہت سے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔‘‘

لیکن وہ کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ اختلافات زیادہ دن باقی نہ رہیں۔
جرمنی میں 2013ء میں عام انتخابات ہوں گے۔ وہاں کی دوسری سب سے بڑی پارٹی، سوشل ڈیموکریٹس، رائے عامہ کے جائزوں میں پیچھے ہے، لیکن اس کی فتح کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

مسٹر اولاندے کی طرح، ان کے اُمیدوار پیر اسٹینبرک نے بھی اخراجات میں کمی کے اقدامات میں نرمی لانے اور یورپی قرضے کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی حمایت کی ہے۔

تالانی کہتی ہیں کہ مسٹر اولاندے اور مسٹر اسٹینبرک، دونوں مل کر یورو کی پالیسی میں صحیح معنوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ’’اگر ان کے مقاصد ایک جیسے ہیں، تو یورپی ممالک کے ان مقاصد کو حاصل کرنے کا امکان زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے منڈیوں میں بھی اطمینان کا ماحول پیدا ہو گا۔‘‘

اور بالآخر جرمنی اور فرانس دونوں کو منڈیوں کو ہی خوش کرنا ضروری ہے، اور یہ منڈیاں ہی ہیں جو پالیسیوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوں گی۔