’بدعنوانی سے عالمی معیشت کو سالانہ دو ٹرلین ڈالر کا نقصان‘

فائل

آئی ایم ایف کی سربراہ، کرسٹین لے گاردے نے کہا ہے کہ بدعنوانی کی براہ راست معاشی چوٹ تو واضح ہے۔ تاہم، بالواسطہ قیمت کی نوعیت مزید بدتر ہے، ’’جس سے شرح افزائش میں کمی اور آمدن میں مزید عدم مساوات جنم لیتی ہے‘‘۔

رشوت ستانی اور بدعنوانی کے نتیجے میں عالمی معیشت کو ہر سال دو ٹرلین ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے، جس رقم کو غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ایک نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال بدعنوانی کی نذر ہونے والی یہ رقم مجموعی عالمی قومی پیداوار کا دو فی صد بنتی ہے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ، کرسٹین لے گاردے نے کہا ہے کہ بدعنوانی کی براہ راست معاشی چوٹ تو واضح ہے۔ تاہم، بالواسطہ قیمت کی نوعیت مزید بدتر ہے، ’’جس سے شرح افزائش میں کمی اور آمدن میں مزید عدم مساوات جنم لیتی ہے‘‘۔


اُنھوں نے بدھ کے روز کہا کہ ’’اس سے حکومت پر اعتماد میں کمی پیدا ہوگی، جب کہ نجی شہریوں کے اخلاقی معیار میں بگاڑ کا باعث بنے گی‘‘۔

لے گاردے نے کہا کہ سرمایہ کار ایسے ملکوں کی جانب توجہ دیتے ہیں جن کے عوامی اہل کار اعتماد کے معیار پر پورے اترتے ہوں، کیونکہ اُنھیں یقین دہانی کی ضرورت پڑتی ہے کہ اُنھیں مستقل رشوت نہیں دینی پڑے گی‘‘۔

آئی ایم ایف کی جانب سے بدعنوانی کی تشریح یہ کی گئی ہےکہ ’’نجی فائدے کے لیے سرکاری عہدے کا ناجائز فاہدہ اٹھانا‘‘۔

تاہم، اس میں ٹیکس چرانا اور محصول میں مرضی کے استثنیٰ کا حصول شامل نہ ہو، جس سے شہریوں کو اپنے طور پر ٹیکس کی ادائگی میں کوئی خاص ترغیب ملتی ہو۔

رشوت ستانی اور بدعنوانی سے بینکاری کا نظام کمزور پڑتا ہے اور لوگوں پر مالی منڈیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ بدعنوانی کی سماجی اور ماحولیاتی قیمت بے انتہا ہوتی ہے، جن کا نتیجہ ضابطہٴ کار پر عمل درآمد میں کوتائی، مزید آلودگی اور قدرتی وسائل کی تباہی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔

رپورٹ میں رُکن ملکوں کو اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ بدعنوانی کے انسداد کے لیے مالی سال کی رقوم اور مختص مالیات میں شفافیت کے لیے بین الاقوامی معیار اپنایا جائے، اور ایسے جرائم کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کے اقدام کو قابل اعتماد بنایا جائے۔

ادارے نے کہا ہے کہ اِن مسائل کو عیاں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صحافت آزاد ہو، جو اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔